سوال:
مفتی صاحب! میرے والد نے اپنی کاشتکاری کی زمین ہم بہن بھائیوں پر وقف کی تھی، اور وقف نامہ میں یہ الفاظ لکھوائے تھے کہ "میں کاشتکاری کی زمین اپنی صلبی اولاد پر وقف کرتا ہوں"، اب میرے والد کا انتقال ہوچکا ہے، اور ہم ایک بہن اور دو بھائی ہیں، بھائی کا انتقال ہوچکا ہے، اور اس کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، سوال یہ ہے کہ مذکورہ زمین کی آمدنی میں مرحوم بھائی کے بچے حق دار ہوں گے، نیز اب میرے اور بہن کے درمیان کس حساب سے آمدنی تقسیم ہوگی؟
جواب: صورت مسئولہ میں چونکہ آپ کے والد نے وقف نامہ میں یہ الفاظ لکھوائے تھے کہ "میں کاشتکاری کی زمین اپنی صلبی اولاد پر وقف کرتا ہوں"، اور صلبی اولاد سے مراد بطن اول ہوتا ہے، لہذا زندہ رہنے تک آپ کا بھائی موقوفہ زمین کی آمدنی میں آپ اور بہن کے ساتھ برابر کا حق دار تھا، لیکن اس کے انتقال کے بعد موقوفہ زمین کی کل آمدنی آپ اور آپ کی بہن میں برابر تقسیم ہوگی اور مرحوم بھائی کی اولاد، اس آمدنی میں حق دار نہیں ہوگی، اور جب آپ دونوں کا انتقال ہوجائے گا، تو موقوفہ زمین کی آمدنی غرباء پر خرچ کی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (468/4، ط: دار الفکر)
كجعله لولده، ولكن يختص بالصلبي ويعم الأنثى ما لم يقيد بالذكر ويستقل به الواحد، فإن انتفى الصلبي فللفقراء دون ولد الولد
(قوله: ولكن يختص بالصلبي) أي بالبطن الأول إن وجد، فلا يدخل فيه غيره من البطون لأن لفظ ولدي مفرد وإن عم معنى، بخلاف أولادي بلفظ الجمع على ما يأتي (قوله ويعم الأنثى) أي كالذكر لأن اسم الولد مأخوذ من الولادة وهي موجودة فيهما درر وإسعاف (قوله: ما لم يقيد بالذكر) في بعض النسخ بالذكور وهي كذلك في الدرر (قوله: ويستقل به الواحد) أي بأن كان له أولاد حين الوقف فماتوا إلا واحدا أو لم يكن له إلا واحد فإن ذلك الواحد يأخذ جميع غلة الوقف لأن لفظ ولدي مفرد مضاف فيعم۔۔۔۔الخ
الھندیۃ: (373/2، ط: دار الفکر)
رجل قال: أرضي هذه صدقة موقوفة على ولدي. كانت الغلة لولد صلبه يستوي فيه الذكر والأنثى وإذا جاز هذا الوقف فما دام يوجد واحد من ولد الصلب كانت الغلة له لا غير فإن لم يبق واحد من البطن الأول تصرف الغلة إلى الفقراء ولا يصرف إلى ولد الولد شيء۔۔۔۔الخ
فتاوی رحیمیہ: (49/9، ط: دار الاشاعت)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی