سوال:
السلام علیکم
مفتی صاحب ! وضو بار بار ٹوٹ جاتا ہے، بات یہ کہ میرا آ نت کا آپریشن ہوا ہے، جب سے جیسے ہی وضو کر کے نماز پڑھنے لگتا ہوں، وضو ٹوٹنے لگتا ہے اور کبھی کبھی تو دو تین بار وضو کرنا پڑتا ہے۔
اور دوسری بات یہ کہ نماز میں وضو ٹوٹنے کے ڈر سے نماز سے دھیان ہٹ جاتا ہے اور جب دوبارہ وضو کرتا ہوں پھر ٹوٹ جاتا ہے تو نماز میں خشوع نہیں رہتا، تو ایسی صورت میں میرے لیے کیا حکم ہے؟
جواب: ۱۔ صورت مسئولہ میں اگر آپ کا وضو وقفہ وقفہ سے ٹوٹتاہے اور وہ وقفہ اس قدر ہے کہ جس میں وقتیہ فرض نماز ادا کی جاسکتی ہے، تو آپ شرعاً معذور کے حکم میں نہیں ہے ، لہٰذا جب بھی وضو ٹوٹے گا تو نیا وضو کرکے نماز پڑھنا لازم ہوگا۔ اور اگر وضو ٹوٹ جانے کا وقفہ اتنا کم ہے کہ نماز کے پورے وقت میں فرض نماز پڑھنے کا بھی موقع نہیں مل پاتا تو آپ شرعاً معذور کے حکم میں ہیں اور معذور کا حکم یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے وقت میں ایک وضو آپ کے لئے کافی ہوگا ، اور وقت نکل جانے پر وضو ٹوٹ جائے گا ۔
۲۔ نماز میں وضو ٹوٹ جانے کا اگر وسوسہ آتا ہے تو شیطانی وسوسہ سمجھ کر اس کی طرف دھیان نہ دیا جائے اور اللہ تعالی کی عظمت اور جلال کا تصور کرتے ہوئے نماز پوری کی جائے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ
عن عباد بن تميم، عن عمه، انه شكا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الرجل الذي يخيل إليه انه يجد الشيء في الصلاة، فقال:" لا ينفتل او لا ينصرف حتى يسمع صوتا او يجد ريحا".
(بخاری، حدیث نمبر:١٣٧، ج١، ص: ٣٩، ط: دار طوق النجاة )
ترجمہ:
عباد بن تمیم سے اپنے چچا (عبداللہ بن زید) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ ایک شخص ہے جسے یہ خیال ہوتا ہے کہ نماز میں کوئی چیز (یعنی ہوا نکلتی) معلوم ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (نماز سے) نہ پھرے یا نہ مڑے، جب تک آواز نہ سنے یا بو نہ پائے۔
لہذا آپ وساوس کی وجہ سے نماز نہ چھوڑیں، بلکہ نماز کو جاری رکھیں، اور وساوس کی طرف دھیان نہ دیں، انشاءاللہ کچھ عرصہ بعد وساوس آنا بند ہو جائیں گیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
إعلاء السنن: (باب إن المستحاضۃ تتوضأ لوقت کل صلاۃ، 262/1، ادارہ القرآن)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: جاء ت فاطمۃ بنت أبي حبیش إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقالت: یا رسول اللّٰہ! إني امرأۃ أستحاض فلا أطہر، أفأدع الصلاۃ؟ قال: لا، إنما ذٰلک عرق، ولیس بالحیضۃ، اجتنبي الصلاۃ أیام محیضک، ثم اغتسلي و توضئي لکل صلاۃ، و إن قطر الدم علی الحصیر۔
الدر المختار: (305/1، ط: دار الفکر)
(وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة)
بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ ويصلي فيه خاليا عن الحدث (ولو حكما) لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرة (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة) لأنه الانقطاع الكامل.
البحر الرائق: (226/1، ط: دار الکتاب الاسلامی)
ومن به سلس بول وهو من لا يقدر على امساكه والرعاف الدم الخارج من الأنف والجرح الذي لا يرقأ أي الذي لا يسكن دمه من رقا الدم سكن
وإنما كان وضوءها لوقت كل فرض لا لكل صلاة لقوله عليه الصلاة والسلام المستحاضة تتوضأ لوقت كل صلاة رواه سبط ابن الجوزي عن أبي حنيفة
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی