عنوان: مضاربت کے معاملے میں نفع کی شرح طے نہ کرنا اور مضارب کا معاملے کو لٹکائے رکھنا(6493-No)

سوال: عثمان شہر کا ایک معروف تاجر ہے، زید نے 45 لاکھ روپے عثمان کو کاروبار کے لئے ان شرائط کے ساتھ دیے کہ عثمان اس رقم سے مال خریدے گا اور خود اپنی دوکان کو وہ مال بیچے گا اور مہینے بعد حساب کر کے زید کو اپنی مرضی سے نفع دے گا۔
زید نے عثمان سے حلف لیا کہ عثمان سودی کام نہیں کرے گا اور جب رقم واپس لینی ہوگی، تو 1 ماہ پہلے عثمان کو آگاہ کرے گا، اور عثمان مہینے کے اندر رقم واپس کرنے کا پابند ہوگا۔
عثمان ہر ماہ خرید و فروخت کا حساب لکھ کے بھیجتا رہا اور منافع بھی دیتا رہا، کچھ عرصے بعد زید کو بیرون ملک جانا پڑ گیا، عثمان نے زید کو تفصیلی حساب بھیجنا بند کردیا، فون بھی اٹھانا چھوڑ دیا، زید کچھ ماہ بعد واپس آیا تو عثمان نے کہا کہ کام رک گیا تھا، زید کے رقم واپسی کے مطالبہ پر کہا کہ 5 ماہ لگیں گے، آپ کی رقم محفوظ ہے، آگے کسی دوست کو کام کے لئے دی تھی تو پھنس گئی ہے، زید نے احتجاج کیا کہ میرا آپ سے یہ معاہدہ نہیں تھا، مگر زید اب مجبور تھا، 5 ماہ بعد عثمان نے زید کو 20 لاکھ واپس کردیے اور کہا کہ 25 لاکھ ابھی بزنس سے نہیں نکل سکتے، کچھ ماہ لگ جائیں گے، ہر ماہ جو نفع ہوگا، وہ آپ کو مل جائے گا، زید نے کافی مزاحمت کی کہ مجھے آپ کے ساتھ کام نہیں کرنا، مگر عثمان نہیں مانا، مہینہ گزرنے پہ عثمان صاحب نے کہا کہ 40000 ھزار نفع ہوا ہے، نصف آپ کو دوں گا، جبکہ زید کا اپنی رقم کی واپسی کے مطالبہ پر کہا کہ آپ زبردستی کر رہے ہیں، اگر 40 کل نفع آیا ہے تو پورا مجھے دیں، مگر عثمان نے 40 میں سے 30 زید کو دیے، پھر اگلے مہینے عثمان نے زید کو 30 دیئے، مگر خرید و فروخت کی تفصیل بتانے سے گریزاں ہے، اور اب اگلے مہینے رقم واپسی کا وعدہ کر رہا ہے اور بعد میں حلف بھی دینے کا وعدہ کر رہا ہے، آپ اس معاملے میں رہنمائی فرمائیں کیونکہ زید ایک دیندار آدمی ہے اور حرام کمائی سے بچتا ہے۔

جواب: مذکورہ صورت میں زید کا عثمان کے ساتھ مضاربت کا معاملہ ہے٬ کہ وہ زید کے پیسوں سے مال خرید کر اپنے دوکان کو فروخت کرے گا٬ لیکن اس معاملہ میں نفع کا تناسب طے نہیں کیا گیا تھا کہ کس کا کتنا نفع ہوگا، بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ زید حساب کتاب کرکے اپنی مرضی سے نفع دے گا یعنی نفع ہوگا تو دونوں کا مشترک٬ لیکن عثمان اپنی مرضی سے جو دینا چاہے دے گا٬ آپ پر لازم تھا کہ جس وقت یہ معاہدہ کیا اسی وقت باقاعدہ منافع کی شرح طے کرلیتے٬ لیکن چونکہ آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ فی الجملہ نفع میں شرکت کی بات کی گئی٬ لہذا اب منافع کی تقسیم فریقین کے درمیان پچاس پچاس فیصد کے تناسب سے ہوگی.
جہاں تک اس شرط کا تعلق ہے کہ "جب عثمان کو رقم واپس لینی ہوگی٬ تو زید کے آگاہ کرنے کے بعد عثمان ایک مہینے کے اندر اس کی رقم واپس کرنے کا پابند ہوگا".
اس شرط کا اگر یہ مطلب ہے کہ جس مہینے زید آگاہ کرے گا٬ اس مہینے تک کاروبار میں اس کا جتنا سرمایہ (راس المال بمع نفع) موجود ہوگا٬ عثمان اتنی رقم دینے کا پابند ہوگا٬ تو یہ شرط لگانا جائز ہے.
لیکن اگر اس کا یہ مطلب ہو کہ شروع سے لیکر آخر تک جتنا سرمایہ زید کا لگا ہے وہ٬ اور اب تک جو نفع حاصل ہوا ہو٬ وہ ساری رقم دینی ہوگی٬ یعنی اگر کوئی نقصان ہوا بھی تو زید اس کا ذمہ دار نہیں ہوگا. مضاربت کے اندر ایسی شرط لگانا جائز نہیں ہے٬ جس سے رب المال اپنا پورا سرمایہ محفوظ رکھنا چاہتا ہو اور نقصان کی ذمہ داری نہ لے٬ لہذا ایسی شرط کا شرعا کوئی اعتبار نہیں ہوگا٬ اور اس کا معاملے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا٬ بلکہ وہ شرط خود لغو اور کالعدم متصور ہوگی٬ اور نقصان کی صورت میں اگر عثمان (مضارب) کی کوئی غفلت یا کوتاہی کا دخل نہ ہو٬ تو وہ نقصان کا ذمہ دار نہیں ہوگا٬ بلکہ نقصان اسی کاروبار سے پورا کیا جائے گا٬ نقصان پورا کرنے کے بعد جو نفع بچے گا٬ وہ دونوں کے درمیان آدھا آدھا تقسیم ہوگا.
لہذا مذکورہ صورت میں جب زید نے عثمان سے رقم واپس کرنے کا مطالبہ کیا تھا٬ تو معاہدہ کی رو سے اسی مہینے حساب و کتاب کرکے معاملہ صاف کرنا شرعاً ضروری تھا٬ عثمان کا اس طرح معاملے کو لٹکائے رکھنا٬ معاہدے کی خلاف ورزی کی وجہ سے شرعا درست نہیں.
لہذا اب حکم یہ ہے کہ کاروبار میں اگر عثمان (مضارب) کی غفلت و کوتاہی کے بغیر نقصان ہوا٬ تو اس نقصان کو کاروبار سے پورا کیا جائے گا٬ چنانچہ شروع سے لیکر اب تک جتنا نفع ہوا٬ اس کو جمع کیا جائے گا٬ پھر اس سے ہونے والے نقصان کو منہا کیا جائے گا٬ اس کے بعد جو مال بچے اس میں سے زید کا اصل سرمایہ نکال کر اسے دیا جائے گا٬ اور جو باقی نفع ہو٬ وہ دونوں کے درمیان آدھا آدھا ہو گا٬ اور اگر مضارب( عثمان) کی غفلت کوتاہی سے کوئی نقصان ہوا ہو٬ تو ایسی صورت میں اس سے حقیقی نقصان کی تلافی کروائی جاسکتی ہے٬ نیز اس سلسلے میں فریقین باہمی رضامندی سے مصالحت کی کوئی صورت بھی اختیار کی جاسکتی ہے.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار: (648/5 ط: دار الفكر)
"(وشرطها ) أمور سبعة…( وكون الربح بينهما شائعا ) فلو عين قدرا فسدت ( وكون نصيب كل منهما معلوما ) عند العقد ومن شروطها كون نصيب المضارب من الربح حتى لو شرط له من رأس المال أو منه ومن الربح فسدت وفي الجلالية كل شرط يوجب جهالة في الربح أو يقطع الشركة فيه يفسدها وإلا بطل الشرط وصح العقد اعتبارا بالوكالة"

درر الحكام: (461/3، ط: دار الجیل)
"وكل شرط لا يؤدي إلى جهالة الربح فهو باطل والمضاربة صحيحة كشرط الضرر والخسار على المضارب أو كشرطه على المضارب وعلى رب المال"
"ولكن إذا ذكرت الشركة على الإطلاق بأن قيل مثلا الربح مشترك بيننا يصرف إلى المساواة ولا يقال في هذه الصورة إن المضاربة فاسدة لجهالة الربح ؛ لأن لفظ (بين ) يدل على التنصيف والتشريك (الولوالجية )"

مجلة الأحكام العدلية: (المادة: 1411، ص: 272، ط: نور محمد)
يشترط في المضاربة أن يكون رأس المال معلوما كشركة العقد أيضا وتعيين حصة العاقدين من الربح جزءا شائعا كالنصف والثلث ولكن إذا ذكرت الشركة على الإطلاق بأن قيل مثلا الربح مشترك بيننا " يصرف إلى المساواة"

کذا فی فتاوی جامعة الرشید کراتشی: رقم الفتوی: 57218

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1197 Jan 14, 2021
Muzarbat kay muamlay mein nafa ki sharah tay na karna aur muzarib ka muamlay ko latkaey rakhna, mudarabah, muzarbah, musharkah, musharakah, Not deciding (finalizing / settling) the proportion of profit in case of Muzarbat and delaying the matter of Muzarib, Sharing the profit and loss with venture capital, General and limited partnership, rabb-ul-maal, mudarib, mudarabah, musharakah, contract, agreed proportion of profit,

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.