سوال:
اس حدیث کی تصدیق درکار ہے: "حضرت ابو ہریرہؓ ایک بار مدینہ کی گلیوں میں صدا لگا رہے تھے کہ میں نے مدینے کی گلیوں میں رب کو چلتے پھرتے دیکھا۔ جب حضرت عمرؓ نے یہ سنا تو انہیں پکڑ کرحضور رسالت مآب ﷺ کی بارگاہ میں لے گئے اور عرض کرنے لگے کہ یارسول اللہﷺ ابوہریرہ دیوانہ ہو گیا ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ اے عمر! ابوہریرہ کیا کہتا ہے؟ حضرت عمرؓ عرض کرنے لگے کہ ابوہریرہ کہتا ہے کہ میں نے مدینے کی گلیوں میں رب کو چلتے پھرتے دیکھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ سچ کہتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا یارسول اللہ ﷺ وہ کیسے؟ تو اللہ کے رسول ﷺ نے جواب دیا: "میں رحمان کا شیشہ ہوں، جس نے مجھے دیکھا، پس تحقیق اس نے اپنے رب کو دیکھا"۔ (بحوالہ: تفسیرروح البیان)
جواب: : سوال میں ذکرکردہ واقعہ باوجود تلاش و کوشش کے حدیث اورسيرت کی کسی مستند و معتبر کتاب میں حدیث کی کسی بھی قسم (صحیح،حسن، ضعیف وغیرہ)کسی بھی شکل میں نہیں ملا ،لہذا اس کی نسبت جناب رسول اللہ ﷺ کی طرف کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے ۔سوال میں ذکرکردہ واقعہ درج ذیل وجوہات کی بناء پر بیان کرنا درست نہیں ہے۔
۱۔ احادیث مبارکہ کے معاملے میں تفسیر" روح البیان" جس کے مصنف شیخ اسماعیل حقی ہیں، معتمد نہیں ہے ،کیونکہ اس تفسیر میں ہر قسم کی صحیح، ضعیف اور من گھڑت روایات ہیں اور صحیح،غلط ہر طرح کی چیزیں اس میں موجود ہیں، لہذا بغیر سند کےروایت کے صحیح و ضعیف ہونے میں اس تفسیر کی کسی بات کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا ہے۔(1)
۲۔ باوجود تلاش اور کوشش کے یہ واقعہ تفسیر روح البیان میں بھی نہیں ملا۔
۳۔ اس واقعہ کے آخر میں جملہ ’’ انی مرآۃ الرحمان من رانی فقد رانی ‘‘ کے الفاظ میں سے صرف ’’ من رانی فقد رانی ‘‘ کے الفاظ ثابت ہیں اور بخاری ، مسلم اور احادیث کی دیگر کتب میں موجود ہیں ، لیکن سوال میں ان الفاظ کا ترجمہ ’’ میں رحمان کا شیشہ ہوں ، جس نے مجھے دیکھ لیا،اس نے اللہ کو دیکھ لیا‘‘ غلط کیا گیا ہے۔ذیل میں حدیث شریف کا صحیح ترجمہ اور تشریح ذکر کی جاتی ہے۔
ترجمہ:حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے مجھے دیکھا، اس نے حق دیکھا۔“( بخاری،حدیث نمبر:6996، ط: دار طوق النجاة)(2)
تشریح :
واضح رہے کہ اس مضمون کی احادیث، جو متعدد طرق و اسانید سے اور مختلف الفاظ میں منقول ہیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جس شخص نے آنحضرت ﷺ کو خواب میں دیکھا اس نے حقیقت میں آنحضرت ﷺ ہی کو دیکھا اس بارے میں دروغ خیال اور شیطانی اثرات کا قطعا دخل نہیں ہوتا ہے.
علامہ طیبی(م743ھ) فرماتے ہیں:یہاں "حق" مصدر مؤکد ہے، أي فقد رأى رؤية الحق یعنی جس نے خواب میں نبیﷺ کی زیارت کی تو اس نے سچا خواب دیکھا۔(3)
اور بخاری شریف کی ایک اور روایت سے اس مفہوم اور مطلب کی تائید ہوتی ہے۔بخاری شریف میں ہے کہ ترجمہ:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے روایت ہے کہ ، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ جس نے مجھے دیکھا، اس نے حق دیکھا کیونکہ شیطان مجھ جیسا نہیں بن سکتا۔(حدیث نمبر:6998)(4)
ایک اور روایت میں ہے کہ ترجمہ:’’جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو اس نے مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔‘‘( صحيح البخاري، حدیث نمبر: 6993)(۵)
ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں:ترجمہ:’’جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو اس نے سچا خواب دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا‘‘۔(مسندأحمد،حديث نمبر: 7553)(۶)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ سوال میں ذکرکردہ روایت کسی معتمد کتاب میں کہیں موجود نہیں ہے، لہذا اس واقعہ کو بیان کرنے سے اجتناب کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تخریج الحدیث:
(1) التعلیقات الحافلة عى الاجوبة الفاضلة: (ص: 132- 133، ط: مکتب المطبوعات الاسلامیۃ)
بعض کتب التفسیر التی یکثر فیھا ایراد الحدیث من غیر سند کتفسیر الزمخشری ، و البیضاوی و أبی السعود فان مؤلفیھا لانصرافھم عن الاشتغال بعلم الحدیث یوردون فیھا أثناء کلامھم أحادیث بعضھا صحیح، و بعضھا ضعیف، وبعضھا منکر أو موضوع ۔۔۔۔و یلتحق بھذہ التفاسیر أیضا تفسیر’’روح البیان فی تفسیر القرآن‘‘لاسماعیل حقی الواعظ الصوفی المتوفی ۱۱۳۷، فقد نفقت علیہ فی تفسیرہ ھذا الأحادیث الضعیفۃ و الموضوعۃ نفاقا کبیرا ، اذ کان رحمہ اللہ تعالی لا ید لہ بعلم الحدیث، قال شیخنا الکوثری رحمہ اللہ تعالی فی ’’المقالات‘‘:(ص:۳۸۳۔۳۸۴)للوعاظ شغف عظیم ب ’’تفسیرہ‘‘لما فیه من الحکایات المرفقۃ للقلوب ، وفیه نقول کثیرۃ عن کتب فارسیۃ ۔ وفیه کثیر من اشارات الصوفیۃ ، بل یکثر النقل فیه من التاویلات النجمیۃ لصاحب ‘‘منارات السائرین‘‘و فیه ایضا من وجوہ البیہان ما تستلذہ الاسماع الا انہ لا یتحاشی عن النقل من کل کتاب وعن کل من ھب و دب۔
(2) فتح الباری: (12/389، ط: دار المعرفة)
الحديث الثاني حديث أنس قوله من رآني في المنام فقد رآني هذا اللفظ وقع مثله في حديث أبي هريرة كما مضى في كتاب العلم وفي كتاب الأدب قال الطيبي اتحد في هذا الخبر الشرط والجزاء فدل على التناهي في المبالغة أي من رآني فقد رأى حقيقتي على كمالها بغير شبهة ولا ارتياب فيما رأى بل هي رؤيا كاملة ويؤيده قوله في حديثي أبي قتادة وأبي سعيد فقد رأى الحق أي رؤية الحق لا الباطل وهو يرد ما تقدم من كلام من تكلف في تأويل قوله من رآني في المنام فسيراني في اليقظة والذي يظهر لي أن المراد من رآني في المنام على أي صفة كانت فليستبشر ويعلم أنه قد رأى الرؤيا الحق التي هي من الله لا الباطل الذي هو الحلم فإن الشيطان لا يتمثل بي قوله فإن الشيطان لا يتمثل بي قد تقدم بيانه وفيه ورؤيا المؤمن جزء الحديث وقد سبق قبل خمسة أبواب الحديث الثالث حديث أبي قتادة....من رآني فقد رأى الحق أي المنام الحق أي الصدق ومثله في الحديث الخامس قال الطيبي الحق هنا مصدر مؤكد أي فقد رأى رؤية الحق وقوله فإن الشيطان لا يتمثل بي لتتميم المعنى والتعليل للحكم
(3) صحيح البخاري :( 9/33)،رقم الحديث : 6996،ط:دارطوق النجاة)
حدثنا خالد بن خلي، حدثنا محمد بن حرب، حدثني الزبيدي، عن الزهري، قال ابو سلمة، قال ابو قتادة رضي الله عنه، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" من رآني فقد راى الحق"، تابعه يونس، وابن اخي الزهري
أخرجه البخاري في ’’صحيحه‘‘(9/33)(6997)المسلم في ’’صحيحه‘‘(4/1776)( 2267) وابن ماجة في ’’سننه‘‘(2/1284)( 3903)بنحوه مفصلا وأحمد في ’’مسند ه‘‘( 12/ 513)( 7553) و الطبراني في ’’الأوسط‘‘(۳/۲۳۷)( 3026)و في ’’الصغیر‘‘(۱/175)( 277)وابن أبي شيبة في ’’مصنفه‘‘(6/175)( 30471)
(4) صحيح البخاري :( 9/33)،رقم الحديث : 6997،ط:دارطوق النجاة)
عن ابي سعيد الخدري، سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول:" من رآني فقد راى الحق، فإن الشيطان لا يتكونني".
(5) صحيح البخاري :( 9/33)،رقم الحديث : 6993 ،ط:دارطوق النجاة)
عن الزهري، حدثني أبو سلمة، أن أبا هريرة، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «من رآني في المنام فسيراني في اليقظة، ولا يتمثل الشيطان بي»
(6)مسندأحمد: ( 12/ 513)، رقم الحديث: 7553،ط:مؤسسة الرسالة)
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من رآني في المنام فقد رأى الحق، إن الشيطان لا يتشبه بي
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی