سوال:
کیا یہ حدیث صحیح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:زندہ در گور کرنے والی اور زندہ درگور کی گئی بچی دونوں جہنم میں جائیں گی۔؟
جواب: دریافت کردہ روایت کو کلمات کے اختصار وتفصیل کے ساتھ متعدد محدثین عظام رحمہم اللہ نے اپنی کتب میں ذکر کیا ہے، متعدد طرق سے منقول ہونے اور مؤید روایات کی وجہ سے روایت کو تقویت مل رہی ہے، لہذا مذکورہ روایت کو(تشریح سمجھنے کے بعد) آگے نقل کرنا درست ہے،سنن ابی داؤد میں مذکورہ روایت نہایت اختصار کے ساتھ نقل کی گئی ہے،چنانچہ اس کا ترجمہ درج ذیل ہے:
"حضرت عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:" زندہ درگور ہونے والی( بچی)، اور درگور کرنے والی(بچی کی ماں یا کوئی بھی انسان) دونوں جہنم میں جائیں گے"۔(سنن أبي داؤد، أوّل کتاب السنة، باب في ذراري المشرکین،99/7، رقم الحدیث:4717، المحقق: شعَيب الأرنؤوط - محَمَّد كامِل قره بللي، الناشر: دار الرسالة العالمية)
جبکہ مسند احمد میں اسی روایت کو قدرے تفصیل سے نقل کیا گیا ہے، ترجمہ درج ذیل ہے:
حضرت سلمہ بن یزید سے روایت ہے کہ میں اور میرا بھائی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ہم نے عرض کیا: یارسول اللہ، ہماری والدہ "ملیکہ " صلہ رحمی ، مہمان نوازی ، اور فلاں فلاں اچھے اعمال کرتی تھیں، البتہ دورِ جاہلیت میں (کفر کی حالت پر) وصال ہوا، کیا یہ اچھے اعمال ان کے لئے نفع بخش ثابت ہونگے؟ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: بالکل نہیں۔ ہم نے عرض کیا کہ انہوں نے ہماری بہن کو زندہ درگور کیا تھا، کیا دورِ جاہلیت کایہ عمل ان کے لیے قابلِ گرفت ہوگا؟ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: زندہ درگور کرنے والی اور جس کو درگور کیا گیا دونوں مستحق جہنم ہیں، البتہ اگر درگور کرنے والی خاتون نے اسلام قبول کرلیا تو اللہ عز وجل اس کو معاف فرمادیں گے۔(مسند أحمد،مسند المکیین، حدیث سلمة بن یزید الجعفي،268/25، رقم الحدیث:15923، المحقق: شعيب الأرنؤوط - عادل مرشد، وآخرون، إشراف: د عبد الله بن عبد المحسن التركي، الناشر: مؤسسة الرسالة)
حدیث کا مفہوم ومصداق:
اس حدیث کے سلیس ترجمہ پر یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ زندہ درگور کی جانے والی بچی کا کیا جرم ہے کہ وہ جہنم کی مستحق ٹھہرائی گئی ہے؟ اس روایت کے حوالہ سے عام طور پر شارحینِ حدیث کی جانب سےیوں تأویل ذکر کی جاتی ہےکہ:
"اس حدیث میں زندہ درگور کرنے والی خاتون سے مراد غیر مسلمہ اور کافرہ ہے، چنانچہ وہ بچی ، جس کو اس خاتون نے درگور کیا ، وہ اپنے والدین کے تابع ہوکر جہنم کی مستحق ہوئی، اس قول کو امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔ چنانچہ اس بات کی تائید روایت کے ان کلمات سے ہوتی ہے " الوائدة والموءودة في النار، إلا أن تدرك الوائدة الإسلام، فيعفو الله عنها" (صحیح ابن حبان، باب صفة النار وأهلها، 523/16، مؤسسة الرسالة، بيروت)
نوٹ:روایت بالا کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ کفار ومشرکین کی نابالغ اولاد انتقال کی صورت میں والدین کے تابع ہوکر جہنم کی مستحق ہوگی، مگر جمہور علماء کے نزدیک روایت کی ذکر کردہ تأویل وتوجیہ دیگر اصولی روایات کے معارض ہے، جن کے مطابق اللہ رب العزت بغیر کسی گناہ کے سزا میں گرفتار نہیں فرماتے ۔ چنانچہ اسی بناء پر بعض ائمہ کبار رحمہم اللہ آخرت میں دوبارہ ان بچوں کے امتحان کے قائل ہیں، مگر جمہور علماء رحمہم اللہ جن میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سرفہرست ہیں، ان کا موقف یہ ہے کہ اس حوالہ سے سکوت اختیار کیا جائے، اور معاملہ کو اللہ رب العزت کےسپرد کردیا جائے۔
حدیث بالا کی بے غبار تشریح وتوجیہ:
اس حوالہ سے دوتاویلات ایسی ہیں جن پر ذکر کردہ اعتراض وارد نہیں ہوتا، ذیل میں ان کو با حوالہ نقل کیا جاتا ہے:
(1)یہ ایک مخصوص واقعہ ہے، جس میں نبیﷺ کو بذریعہ وحی اطلاع ہوگئی تھی کہ درگور کی جانے والی بچی بھی جہنم کی مستحق ہے(اگرچہ بلوغت سے قبل درگور کردی گئی )، چنانچہ روایت کا مفہوم "ام سلمہ بنت یزید (جس کا نام "ملیکہ" تھا) اور ان کی زندہ درگور کی جانے والی بچی کے ساتھ خاص ہوگا ۔ یہ قول ابن عبدالبر اور ابن قیم رحمہما اللہ نے اختیار کیا ہے۔
(2) یہاں "موؤدة"سے مراد وہ بچی نہیں، بلکہ وہ خاتون ہے جس کی رضامندی کے ساتھ"وائدة"(درگور کرنے والی داعیہ خاتون نے ) نے زندہ دفن کیا، گویا یہاں پر "وائدة" کا مصداق "داعیہ خاتون" ہے، اور "موؤدة" سے مراد "بچی کی ماں" ہے، گویااصل عبارت یوں ہے"الموؤدة لها"(جس کے لئے درگور کیا گیا ہو)،چونکہ بچی کی ماں اس عمل پر مکمل طور پر رضامند ہے، سو اسی کے لیے ہی درگور کیا گیا۔ اس قول کو قاضی بیضاوی رحمہ اللہ نے اپنی شرح میں ذکر کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل :
سنن أبي داؤد، أوّل کتاب السنة، باب في ذراري المشرکین، 99/7، رقم الحدیث:4717، المحقق: شعيب الأرنؤوط - محَمَّد كامِل قره بللي، الناشر: دار الرسالة العالمية:
عن عامر-رضي الله عنه-، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الوائدة والموؤدة في النار»
مسند أحمد، مسند المکیین، حدیث سلمة بن یزید الجعفي، 268/25، رقم الحدیث: 15923، المحقق: شعيب الأرنؤوط - عادل مرشد، وآخرون، إشراف: د عبد الله بن عبد المحسن التركي، الناشر: مؤسسة الرسالة:
عن سلمة بن يزيد الجعفي، قال: انطلقت أنا وأخي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: قلنا: يا رسول الله، إن أمّنا "مليكة" كانت تصل الرحم، وتقري الضيف، وتفعل وتفعل، هلكت في الجاهلية، فهل ذلك نافعها شيئا؟ قال: " لا " قال: قلنا: فإنها كانت وأدتْ أختا لنا في الجاهلية، فهل ذلك نافعها شيئا؟ قال: " الوائدة والموؤدة في النار، إلا أن تدرك الوائدة الإسلام ، فيعفو الله عنها "
التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد، لابن عبد البر القرطبي، الحدیث الحادي والعشرون، 119/18، تحقيق: مصطفى بن أحمد العلوي , محمد عبد الكبير البكري، الناشر: وزارة عموم الأوقاف والشؤون الإسلامية – المغرب:
وهو حديث صحيح من جهة الإسناد، إلا أنه محتمل أن يكون خرج على جواب السائل في عين مقصودة، فكانت الإشارة إليها -والله أعلم-۔ وهذا أولى ما حمل عليه هذا الحديث؛ لمعارضة الآثار له، وعلى هذا يصح معناه، والله المستعان۔
تحفة الأبرار شرح مصابيح السنة، للقاضي ناصر الدین البیضاوي، کتاب الإیمان، باب إثبات عذاب القبر، 110/1، رقم الحدیث: 54، المحقق: لجنة مختصة بإشراف نور الدين طالب، الناشر: وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية بالكويت:
ولعل المراد بالوائدة: القابلة، وبالموؤدة: "الموؤدة لها"، وهي أم الطفل، فحذفت الصلة؛ إذ كان من ديدنهم أن المرأة إذا أخذها الطلق حفر لها حفرة عميقة، فجلست عليها، والقابلة وراءها تترقب الولد، فإن ولدت ذكرا أمسكت، وإن ولدت أنثى ألقتها في تلك الحفرة، وأهالت عليها التراب.
التنویر شرح الجامع الصغیر، لأمیر عز الدین محمد بن الصلاح الصنعاني، حرف الواو، فصل في المحلى ب "أل" في هذا الحرف، 53/11، رقم الحدیث: 9640، المحقق: د. محمَّد إسحاق محمَّد إبراهيم، الناشر: مكتبة دار السلام، الرياض:
قوله: "الوائدة" أي النفس القاتلة للولد بدفنه حيا، كان من عادة العرب: أن المرأة إذا أخذها الطلق حفر لها حفرة عميقة، فجلست عليها والقابلة فيها ترقب الولد، فإن انفصل ذكرا أمسكته، أو أنثى ألقتها في الحفرة، وأهالت عليها التراب۔ وقوله: "والموءودة" قيل: أراد بها هنا أم الطفلة برضائها، بقتلها في النار، وأما الطفلة فإنها في الجنة، فسمّيت الأم "موءودة"؛ لأنها برضائها بدفن ابنتها، صارت كأنها قتلت نفسها۔
إنجاح الحاجة، لمحمد عبد الغني المجددي الحنفي (ت 1296 ه)، ضمن کتاب "شرح سنن ابن ماجه للسیوطی وغیره" ، باب اتباع السنة، 9/1، الناشر: قديمي كتب خانة – كراتشي:
وأما أطفال المشركين: ففيهم أقاويل، وسكت أبو حنيفة في هذه المسئلة، وقال بعضهم: هم من أهل الجنة؛ لأنهم لم يعملوا شرا، وقال بعضهم: هم في النار، تبعا لآبائهم؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: "الوائدة والمؤودة كلاهما في النار"۔ وقال بعضهم: هم من خدام أهل الجنة۔ وقال الشيخ المجدد -رضي الله عنه-: حكم سكان شواهق الجبال، وحكم أطفال المشركين، كحكم البهائم يحشرون، ثم يصيرون ترابا؛ لأن الجنة جزاء الأعمال؛ قال الله تعالى: {تلك الجنة التي أورثتموها بما كنتم تعملون} والنار بعد تبليغ الرسل، والصبي لم يشاهد رسولا قط؛ قال الله تعالى: {وما كنا معذبين حتى نبعث رسولا} ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی