سوال:
مفتی صاحب ! ہمارے علاقے میں حق مہر اس طرح مقرر کرتے ہیں کہ 30 تولہ سونا حق مہر ہے، باقی جتنا آپ بناسکتے ہو، بنالو۔ 30 تولہ سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ جب یہ بندہ بیوی کو طلاق دے گا تو 30 تولہ سونا دینا ہوگا۔ ہم نے کسی مولوی صاحب سے سنا ہے کہ حق مہر تو شادی والے دن ہی بیوی کو دیا جاتا ہے۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ اس صورت میں حق مہر کتنا ہوگا، کیونکہ نکاح تو 30 تولہ سونے کے عوض ہی ہوتا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ نکاح نامہ میں مہر کی جتنی مقدار لکھی جائے٬ اس کے مطابق ادائیگی شرعا لازم ہوتی ہے٬ اس لئے جتنا مہر دینا مقصود ہو، وہی لکھنا چاہئے٬ نیز مہر میں غلو سے کام لینا اور شوہر کی استطاعت سے کہیں زیادہ حق مہر لکھوانا شرعا پسندیدہ نہیں ہے٬ میاں بیوی کے رشتے کی اصل بنیاد باہمی خلوص، وفاداری٬ اعتماد اور للہیت ہے٬ اگر یہ نہ ہو تو کروڑوں کے مال اسباب بھی اس کا متبادل نہیں بن سکتے٬ اور اگر یہ چیز موجود ہو تو فاقہ کشی بھی اس نازک رشتے کو متزلزل نہیں کرسکتی٬ زیادہ جہیز دینا یا زیادہ حق مہر لکھوانا میاں بیوی کے باہمی رشتے کو مضبوط نہیں بناتا٬ اس لئے بلاوجہ ایسی لایعنی شرائط رکھنا اور استطاعت سے کہیں زیادہ مہر لکھوانا مناسب نہیں ہے٬ کیونکہ شریعت کا مزاج یہ ہے کہ بہت زیادہ مہر نہ رکھا جائے٬ اس لئے اس سے اجتناب کرنا چاہئے٬ تاہم نکاح نامے پر جتنا مہر لکھوایا جائے، اگر شوہر اس پر دستخط کر کے رضامندی کا اظہار کر دے٬ تو اس پر پورے مہر کی ادائیگی شرعا لازم ہوجائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن أبي داؤد: (رقم الحدیث: 2105، 444/3، ط: دار الرسالة)
عن أبي العَجفَاء السُّلَمي، قال:
خطبنا عُمَرُ فقال: ألا لا تُغَالوا بصدُقُ النِّسَاءِ، فإنها لو كانت مَكرُمَةً في الدنيا أو تقوى عندَ اللهِ، لكان أولاكم بها النبي - صلَّى الله عليه وسلم -، ما أصْدَقَ رسولُ الله - صلَّى الله عليه وسلم - امرأةً مِن نِسائه ولا أُصْدِقَت امرأةٌ مِن بناته أكثرَ مِن ثنتي عَشَرَة أُوقِيةً.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی