عنوان: میاں بیوی کے بنیادی فرائض و حقوق اور ہر ایک کی اخلاقی ذمہ داریاں (6556-No)

سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری بیوی کا انتقال ہوگیا، جس سے میری اولاد بھی ہے، بیوی کے انتقال کے تین سال بعد میں نے ایک مطلقہ عورت سے شادی کی، اور شادی کرتے وقت میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تم میرا، میرے بچوں اور میرے گھر کا بھی خیال رکھو گی، یہ تمہاری ذمہ داری ہے، شادی کے کچھ عرصے تک تو وہ اپنی ذمہ داریاں نبھاتی رہی اور پھر آہستہ آہستہ وہ جو ذمہ داریاں اس پر تھی، اس نے چھوڑ دی، جبکہ میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرتا ہوں، اس کی فرمائشیں بھی پوری کرتا ہوں، ہاں کبھی کوئی کمی کوتاہی مجھ سے بھی ہوگئی ہوگی، جبکہ میری بیوی اپنی ذمہ داریاں پوری طرح نہیں نبھا رہی ہے، بچوں، گھر اور میرے حوالے سے بھی کچھ باتوں میں مجھے نظر انداز کرتی ہے اور کپڑے بھی اس طرح پہنتی ہے، جو مجھے پسند نہیں، آزادی والا لباس ہے، جس پر مجھے اعتراض ہے، اور روزانہ کسی نہ کسی بات پر ہمارے اختلافات ہوتے ہیں اور میری بیوی کہتی ہے کہ میں یہ ذمہ داریاں پوری نہیں کرسکتی، اس کے ذہن میں یہ ہے کہ اس نے یہاں شادی کر کے غلطی کی، درمیان میں اپنے ماں کے گھر چلی گئی تھی تو میں اسے پھر دوبارہ واپس لے آیا اور اب وہ دو مہینوں سے اپنے ماں کے گھر میں ہے، تو اب میرا سوال یہ کہ بیوی کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ کیا میرے بچوں کا، میرا اور میرے گھر کا خیال رکھنا اس کی ذمہ داری نہیں؟
اور میں نے سات دن سے استخارہ کیا، جس کے بعد صبح اٹھ کے مجھے سکون ہوتا ہے، کوئی گھبراہٹ نہیں ہوتی تو اس کا کیا مطلب ہے کہ میں بیوی کے بغیر سکون میں ہوں گا یا اس کے آنے کے بعد مجھے سکون ہوگا ؟ برائے مہربانی قرآن اور سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب: واضح رہے کہ اسلامی معاشرے کی بنیادی اکائی میاں بیوی ہیں، انہی دو کے مثالی تعلقات سے مثالی اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے، ایک شخص جب کسی عورت کو اپنے نکاح میں لیتا ہے، تو وہ اس کے ساتھ تا زندگی رہنے کا عزم کرتا ہے، اسی لیے شریعت میں ایسا نکاح جو ہمیشگی کے لیے نہ ہو، بلکہ ایک مخصوص مدت تک کے لیے ہو، وہ نکاح ہی نہیں ہے، بلکہ حرام کاری اور زنا کے حکم میں ہے، لہذا جب نکاح کا معاملہ اتنا اہم ہے، تو اس کے حقوق بھی اتنے ہی اہم ہیں۔
اس سلسلے میں قرآن کریم نے میاں بیوی کے باہمی تعلق کو بڑے خوبصورت الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
"ھن لباس لکم وانتم لباس لھن".
(سورۃ البقرہ: ١٨٧)
ترجمہ:
وہ (تمہاری بیویاں) تمہارے لئے لباس ہیں، اور تم ان کے لیے لباس ہو۔
دونوں کو شریعت نے ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے کی تاکید فرمائی ہے، اگرچہ شوہر کو گھر کی سربراہی سونپی گئی ہے، لیکن ساتھ ساتھ اسے اپنے بیوی کے بارے میں بطور خاص یہ تاکید بھی کی گئی ہے:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا﴾ [النساء: 19]
ترجمہ:
اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی کے ساتھ گزران کرو اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں، تو ممکن ہے کہ تم ایک شے کو نا پسند کرو اور اللہ تعالیٰ اس کے اندر کوئی بڑی منفعت رکھ دے۔
(ترجمہ از بیان القرآن)

اسی طرح ارشاد نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي".
(مشکاۃ المصابیح، 2 /281، باب عشرۃ النساء، ط: قدیمی)
ترجمہ:
رسول کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل (بیوی، بچوں، اقرباء اور خدمت گزاروں) کے حق میں بہترین ہو، اور میں اپنے اہل کے حق میں تم میں بہترین ہوں۔
(مظاہر حق جدید، 3/365، ط؛ دارالاشاعت)
ایک اور حدیث میں ہے :
وعن حكيم بن معاويةالقشيري عن أبيه قال:قلت : يا رسول الله ما حق زوجة أحدنا عليه ؟ قال: " أن تطعمها إذا طعمت وتكسوها إذا اكتسيت ولا تضرب الوجه ولا تقبح ولا تهجر إلا في البيت " . رواه أحمد وأبو داود وابن ماجه.
ترجمہ:
حکیم بن معاویہ اپنے والد ماجدؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے آپﷺ سے دریافت کیا کہ ہماری بیویوں کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟ آپ ﷺ نے جواب مرحمت فرمایا کہ جب تم کھاؤ تو انہیں کھلاؤ، جب تم پہنو تو انہیں پہناؤ اور چہرے پر نہ مارو، لعن طعن یا گالیاں نہ دو اور ان سے علیحدہ رہائش اختیار نہ کرو (اور اگر کسی وجہ سے علیحدہ رہنا ضروری ہو تو) گھر میں ہی علیحدہ رہ لو۔
(مشکوۃ المصابیح: ۲ /۲۸۱)
دوسری طرف بیوی کو بھی شریعت نے اپنے شوہر کے متعلق کچھ ھدایات دی ہیں۔
ارشاد نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لو كنت آمر أحداً أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها» . رواه الترمذي".
(مشکاۃ المصابیح، 2/281، باب عشرۃ النساء، ط: قدیمی)
ترجمہ:
رسول کریم ﷺ نے فرمایا: اگر میں کسی کو یہ حکم کرسکتا کہ وہ کسی (غیر اللہ) کو سجدہ کرے، تو میں یقیناً عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔
(مظاہر حق، 3/366، ط؛ دارالاشاعت)
ایک حدیث میں ہے:
عن أبي هريرة ؓ قال : قيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم : أي النساء خير ؟ قال : " التي تسره إذا نظر وتطيعه إذا أمر ولا تخالفه في نفسها ولا مالها بما يكره ".
(مشکوۃ المصابیح: ۲ /۲۸۳)
ترجمہ:
آپ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ بہترین عورت کونسی ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جسے اس کا شوہر دیکھے تو خوش ہو جائے اور جب وہ اسے کسی چیز کا حکم دے، تو اسے بجا لائے اور اس کے مال اور اپنی ذات کے اعتبار سےکوئی ایسا فعل نہ کرے جو اسے (شوہرکو ) ناپسند گزرے ۔
(مشکوۃ المصابیح: ۲ /۲۸۳)
ایک اور حدیث مبارک میں ہے:
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «المرأة إذا صلت خمسها وصامت شهرها وأحصنت فرجها وأطاعت بعلها فلتدخل من أي أبواب الجنة شاءت» . رواه أبو نعيم في الحلية".
(مشکاۃ المصابیح، 2/281، باب عشرۃ النساء، ط: قدیمی)
ترجمہ:
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جس عورت نے (اپنی پاکی کے دنوں میں پابندی کے ساتھ) پانچوں وقت کی نماز پڑھی، رمضان کے (ادا اور قضا) رکھے، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی اور اپنے خاوند کی فرماں برداری کی تو (اس عورت کے لیے یہ بشارت ہےکہ) وہ جس دروازہ سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔
(مظاہر حق، 3/366، ط: دارالاشاعت)

ایک ارشاد نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان لعنتها الملائكة حتى تصبح".
(مشکاۃ المصابیح، 2/280، باب عشرۃ النساء، ط: قدیمی)
ترجمہ:
رسول کریم ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی مرد اپنی عورت کو ہم بستر ہونے کے لیے بلائے اور وہ انکار کردے، اور پھر شوہر (اس انکار کی وجہ سے) رات بھر غصہ کی حالت میں رہے، تو فرشتے اس عورت پر صبح تک لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔
(مظاہر حق، 3/358، ط؛ دارالاشاعت)
غرض بہت سی آیات واحادیث اس سلسلے میں موجود ہیں، یہ تمام احادیث میاں بیوی کے لیے نمونہ ہیں، ان کے مطابق اگر ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی فکر کریں گے، تو ان شاء اللہ دنیا وآخرت کی کامیابی نصیب ہوگی۔ اگر اپنی نفسانیت یا ہٹ دھرمی کو سامنے رکھتے ہوئے زندگی گزاریں گے اور صرف اپنے حقوق لینا یاد رہے اور خود پر جو حقوق لازم ہیں ان کی طرف بالکل توجہ نہ دی جائے، تو اس کا نتیجہ بربادی کے علاوہ کچھ نہیں ہے، دنیا کا گھر بھی بے سکون ہوگا اور آخرت کا گھر بھی دہکتا انگارا بنے گا، اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح سمجھ عطا فرمائے، لہذا قرآن کریم کی آیات و احادیث سے فقہاء کرام نے میاں بیوی کے لیے جو موٹے موٹے اصول و حقوق طے کیے ہیں انہیں ذیل میں بیان کیا جاتا ہے۔ ان میں سے بعض امور ایسے ہیں جو شرعاً واجب تو نہیں ہیں، لیکن حسن معاشرت اور اخلاق و دیانت کے تقاضے سے ان پر عمل کرنا ضروری ہے، اس لیے کہ ان کے بغیر خوش حال زندگی گزارنا ممکن نہیں ہے۔
شوہر پر بیوی کے حقوق اور ذمہ داریاں:
١- اپنی حیثیت و وسعت کے مطابق بیوی کے لیے کھانے پینے، پہننے اور رہائش کا بہتر سے بہتر انتظام کرے۔
٢- بیوی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے، بلاضرورت سختی
اور ڈانٹ ڈپٹ سے اجتناب کرے، اسے اپنی خادمہ ونوکرانی کے بجائے رفیقۂ حیات سمجھے، لہذا اس کی جانب سے خلافِ مزاج باتوں پر حتی الامکان صبر سے کام لے۔
٣- اس کو دینی احکام وآداب سکھائے اور اس کو شریعت بالخصوص پردہ شرعی وغیرہ کے اہتمام کی تاکید کرے۔
٤- حسب موقع و سہولت اس کے ماں باپ اور دیگر محرم رشتہ داروں سے ملانے کے لے جائے۔
٥- اگر بیوی کی کوئی غیر شرعی بات سامنے آئے، تو اولاً اسے پیار سے سمجھائے، پھر ڈانٹ ڈپٹ سے سمجھائے، پھر بھی بات نہ بنے، تو بستر علیحدہ کر دے اور پھر بھی اگر شکایت دور نہ ہو، تو خاندان والوں کے ذریعے معاملے کو سلجھانے کی کوشش کرے اور آخری حل شریعت میں طلاق رکھا گیا ہے، احسن طریقے سے طلاق دے دی جائے، لیکن مرد کو چاہیئے کہ اپنے اندر بردباری اور تحمل پیدا کرے۔
٦- بیوی اگر بیمار ہو جائے، تو اس کے علاج معالجہ کا بندوبست کرے۔
٧- بیوی اگر نافرمان یا بدتمیز نہ ہو، تو اسے اپنے ساتھ بسانا اور آباد کرنا ضروری ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ".
(سورۃ النساء :۱۹)
ترجمہ: اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی کے ساتھ گزارہ کرو۔
لہٰذا مرد کا بیوی سے بلاوجہ علیحدہ رہنا درست نہیں ہے۔
بیوی پر شوہر کے حقوق وذمہ داریاں:
١- جائز امور میں شوہر کی مکمل اطاعت کرے، اس کی نافرمانی اور اس کے سامنے زبان درازی سے بچے، بیوی پر اپنے شوہر کا ضروری حق یہ ہے کہ جب بھی شوہر کو خواہش ہو، تو وہ ہمبستری سے (بلاعذر شرعی ) منع نہ کرے۔ کیونکہ نکاح کا اصل مقصد عفت کا حصول اور پاکدامنی ہے، اس لیے میاں بیوی کا ایک دوسرے کی خواہش کا احترام کرنا ضروری ہے۔
ایک حدیث میں یہاں تک ارشاد فرمایا گیا ہے:
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا الرجل دعا زوجته لحاجته فلتأته وإن كانت على التنور". رواه الترمذي
(مشکوٰۃ المصابیح: ۲ /۲۸۱)
ترجمہ:
آپﷺ نے ارشاد فرمایا جب مرد بیوی کو اپنی ضرورت کے لئے بلائے، تو اسے چاہیئے کہ فورا چلی آئے، اگر چہ تنور پر بیٹھی ہو (اور تنور میں لگی روٹی جل جائے ) ۔
(مشکوٰۃ المصابیح: ۲ /۲۸۱)
٢- بیوی اپنی عزت وعصمت اور شوہر کی عدم موجودگی میں اس کے مال کی حفاظت کرے اور نا محرموں سے میل جول نہ رکھے۔
٣- شوہر کے والدین، چھوٹے بہن بھائی، سوتیلی اولاد وغیرہ کی خدمت کرنا، بیوی پر حکم کے درجے میں نہیں ہے۔ اگر وہ نہیں کرتی تو اسے مجبور نہیں کیا جاسکتا، لیکن اگر بیوی اپنے شوہر کا کام کرے گی، تو یہ اس کا اپنے شوہر کے ساتھ تعاون اور حسن معاشرت ہو گی، میاں بیوی اگر اپنے گھر کو ہنستا بستا دیکھنا چاہتے ہیں، تو انہیں اپنے اوپر لازمی احکام شریعت پر عمل کرنے سے آگے بڑھ کر اخلاقی آداب کو بھی بجا لانا ہوگا اور انہیں یہ امور انجام دینے ہوں گے، ہر ایک کو اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی فکر ہو، تبھی زندگی کی گاڑی چل سکے گی، ورنہ دونوں اگر اپنے اپنے حقوق کی وصولی کی جنگ لڑنے لگیں، تو نہ ازدواجی زندگی خوش گوار بنے گی اور نہ ہی باہمی سکون حاصل ہوگا۔
٤- شوہر کے گھر کا کام کاج، کپڑے دھونا، جھاڑو پوچا کرنا، ہانڈی پکانا وغیرہ، یہ سب کام اگرچہ بیوی پر حکم کے درجہ میں لازم نہیں ہیں، شوہر اس پر جبر نہیں کر سکتا، لیکن بیوی کو کوئی عذر اور مجبوری نہ ہو، تو اخلاقا ودیانۃ ذمہ داری ہے، لیکن اگر بیوی اس سے پہلو تہی کرے، تو شوہر کو چاہیئے ان کاموں کے لیے متبادل انتظام (ملازم وغیرہ رکھ کر) کرے۔ اگر عذر نہ ہو تو بیوی کو چاہیے کہ ان امور خانہ داری کو بطریق احسن ادا کرے، کیونکہ یہ معاملات افہام وتفہیم سے حل کیے جاتے ہیں۔
میاں بیوی کے لیے بہترین نمونہ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء اور حضرت علی رضی اللّٰہ عنہما ہیں، آپ ﷺ نے نکاح کے وقت حضرت علی کے ذمے باہر کے امور اور حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا کے ذمے گھر کے امور لگائے تھے، جو کہ حضرت فاطمہ خود سرانجام دیتی تھیں، اس مشقت کی وجہ سے ان کے ہاتھ میں گٹے پڑ گئے تھے لہٰذا عورت کو چاہیئے بقدر استطاعت یہ تمام امور انجام دے۔
اگر میاں بیوی میں سے کوئی بھی اپنی ایسی ذمہ داریاں جو اس پر شرعا واجب ہیں، ادا نہیں کرتا اور سمجھانے بجھانے سے بھی معاملہ حل نہیں ہوتا، تو پھر ان دونوں کو چاہیے کہ وہ طلاق یا خلع کے ذریعے اپنے اس عقد کو ختم کر لیں، یاد رہے کہ بیوی اگر ایسی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرتی ہے، جو اس پر شرعا واجب نہیں ہیں، بلکہ اخلاقاً و دیانۃ اس کی ذمہ داری ہے، مثلاً: گھر کی صفائی ستھرائی، کھانا بنانا، ساس سسر کی خدمت کرنا وغیرہ، تو اس وجہ سے بیوی کو طلاق دینے کی اجازت نہیں ہے، بلکہ باہمی افہام وتفہیم سے اس معاملے کو حل کرنا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (النساء، الآیۃ: 34)
"الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّبِمَا اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللهُ وَاللَّاتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَاهْجُرُوْهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْهُنَّ فَإِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلًا إِنَّ اللهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيْرًا"o

التفسیر المظھری: (100/2)
"فان خاف نشوزها بان ظهرت اماراته منها من المخاشنة وسوء الخلق وعظها فان أظهرت النشوز هجرها فان أصرّت عليه ضربها على قدر نشوزها فان أتت بفاحشة أو تركت الصّلوة المكتوبة أو صيام رمضان أو غسل الجنابة أو الحيض بضربها أو يحبسها بقدر ما يرى ان تنزجر بها وان كان نشوزها ادنى من ذلك وأصرّت ولم تنزجر بالوعظ والهجران ضربها غير مبرح".

و فیه ایضاً: (299/1)
"وَلَهُنَّ أى للنساء على الأزواج حقوق مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ للازواج فى الوجوب واستحقاق المطالبة لا فى الجنس بِالْمَعْرُوفِ بكل ما يعرف فى الشرع من أداء حقوق النكاح وحسن الصحبة فلا يجوز لاحد ان يقصد ضرار الآخر بل ينبغى أن يريدوا إصلاحا قال ابن عباس إنى أحب أن أتزيّن لامرأتى كما تحب امرأتى أن تتزين لى لأن الله تعالى قال وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ - عن معاوية القشيري قال قلت يا رسول اللّٰه ما حق زوجة أحدنا عليه قال ان تطعمها إذا طعمت وان تكسوها إذا اكتسيت ولا تضرب الوجه ولا تقبح ولا تهجر إلا فى البيت - رواه أحمد وأبو داوٗد وابن ماجة وعن جعفر بن محمد عن أبيه عن جابر فى قصة حجة الوداع قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فى خطبته يوم عرفة فاتقوا الله فى النساء فانكم أخذتموهن بامان الله واستحللتم فروجهن بكلمة الله ولكم عليهن ان لا يؤطين فرشكم أحدا تكرهونه فان فعلن ذلك فاضربوهن ضربا غير مبرح ولهن عليكم رزقهن وكسوتهن بالمعروف رواه مسلم ۔۔۔وعن عائشة قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم خيركم خيركم لاهله وانا خيركم لاهلى - رواه الترمذي".

مشکوۃ المصابیح: (287/7)
وعن ابن عباس ؓ قال : جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إن لي امرأة لا ترد يد لامس فقال النبي صلى الله عليه وسلم : " طلقها " قال : إني أحبها قال : " فأمسكها إذا " . رواه أبو داود والنسائي۔

رد المحتار: (228/3)
"وأما الطلاق فإن الأصل فيه الحظر بمعنى أنه محظور إلا لعارض يبيحه وهو معنى قولهم الأصل فيه الحظر والإباحة للحاجة إلى الخلاص فإذا كان بلا سبب أصلا لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص بل يكون حمقا وسفاهة رأي ومجرد كفران النعمة وإخلاص الإيذاء بها وبأهلها وأولادها ولهذا قالوا إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى".

الدر المختار: (572/3)
"وشرعا ( هي الطعام والكسوة والسكنى ) وعرفا هي الطعام ( ونفقة الغير تجب على الغير بأسباب ثلاثة زوجية وقرابة وملك ) بدأ بالأول لمناسبة ما مر أو لأنها أصل الولد ( فتجب للزوجة ) بنكاح صحيح ۔۔۔ ( على زوجها ) لأنها جزاء الاحتباس وكل محبوس لمنفعة غيره يلزمه نفقته".

و فیہ ایضا: (579/3)
"( ويجب عليه آلة الطحن وخبز وآنية شراب وطبخ ككوز وجرة وقدر ومغرفة ) وكذا سائر أدوات البيت كحصر ولبد وطنفسة وما تنظف به وتزيل الوسخ كمشط وأشنان ۔۔۔ ( وتفرض لها الكسوة في كل نصف حول مرة ) لتجدد الحاجة حرا وبردا ( وللزوج الإنفاق عليها بنفسه )".

إحیاء العلوم للغزالی: (کتاب آداب النکاح، الباب الثالث آداب المعاشرۃ، 172/3- 232، ط: دار المنھاج)
أما الزوج فعلیہ مراعاۃ الإعتدال والأدب في إثني عشر أمراً في الولیمۃ والمعاشرۃ والد عابۃ والسیاسۃ والغیرۃ والنفقۃ والتعلیم والقسم والتادیب بالنشوز والوقاع والولادۃ والمفارقۃ بالطلاق (وقولہ) الأدب الثاني: حسن الخلق معہن وإحتمال الأذی منہن ترحما علیہن لقصور عقلہن۔ قال اﷲ تعالیٰ وعاشروہن بالمعروف (وقولہ) الثالث: أن یزید علیاحتمال الأذی بالمداعبۃ والمزاح والملاعبۃ فہي التي تطیب قلوب النساء (وقولہ) والرابع: أن لا ینبسط فيالدعابۃ وحسن الخلق والموافقۃ باتباع ہواہا إلی حد یفسد خلقہا ویسقط بالکلیّۃ ہیبتہ عندہا؛ بل یراعي الاعتدال فیہ فلا یدع الہیبۃ والانقباض مہما رأیٰ منکرًا ولا یفتح باب المساعدۃ علی المنکرات البتۃ بل مہما رأیٰ ما یخالف الشرع والمرؤۃ تنمّر وامتعص (وقولہ) الخامس: الاعتدال في الغیرۃ وہو أن لا یتغافل عن مبادئ الأمور التي تخشی غوائلہا ولا یبالغ في إساء ۃ الظن والتعنت وتجسس البواطن (وقولہ) والخروج الآن مباح للمرأۃ العفیفۃ برضاء زوجہا (وقولہ) السادس: الاعتدال في النفقۃ فلا ینبغي أن یقتر علیہن في الإنفاق ولا ینبغي أن یسرف بل یقتصد (وقولہ) السابع: أن یتعلم المتزوج من علم الحیض وأحکامہ ما یحترزبہ الاحتراز الواجب ویعلّم زوجتہ أحکام الصلاۃ وما یقضی منہا في الحیض وما لا یقضی فإنہ أمر بان یقیہا النار بقولہ تعالیٰ قوا أنفسکم وأہلیکم نارًا فعلیہ أن یلقنہا اعتقاد أہل السنۃ ویزیل عن قلبہا کل بدعۃ (وقولہ) الثامن: إذا کان لہ نسوۃ فینبغي أن یعدل بینہن ولا یمیل إلی بعضہن (وقولہ) التاسع: النشوز (إلی قولہ) أما إذا کان النشوز من المرأۃ خاصۃ فالرجال قوامون علی النساء فلہ أن یؤدبہا؛ لکن ینبغي أن یتدرج في تأدیبہا (إلی قولہ) فإن لم ینجع ذلک فیہا ضربہا ضربًا غیر مبرح (وقولہ) العاشر: في اٰداب الجماع (إلی قولہ) وینبغي أن یاتیہا في کل أربع لیال مرۃ فہو أعدل إذ عدد النساء أربعۃ فجاز التأخیر إلی ہذا الحد نعم ینبغي أن یزید أوینقص بحسب حاجتہا في التحصین فإن تحصینہا واجب علیہ (وقولہ) و من قائل یحل (العزل) برضاہا ولا یحل دون رضاہا (وقولہ) الحادي عشر في آداب الولادۃ (وقولہ) الثاني عشر في الطلاق ولیعلم أنہ مباح؛ ولکنہ أبغض المباحات إلی اﷲ تعالیٰ وإنما یکون مباحا إذا لم یکن فیہ إیذاء بالباطل ومہما طلقہا فقد اذاہا ولا یباح إیذاء الغیر إلا بجنایۃ من جانبہا أو بضرورۃ من جانبہ (وقولہ) الرابع عشر أن لا یفشي سرہا لا في الطلاق ولا عند النکاح (وقولہ) القسم الثاني من ہذاالباب النظر في حقوق الزوج علیہا والقول الشافي فیہ أن النکاح نوع رق فہي رقیقۃ لہ فعلیہا طاعۃ الزوج مطلقًا في کل ما طالب منہا في نفسہا مما لا معصیۃ فیہ (وقولہ) ومن حقہ أن لا تعطي شیئًا من بیتہ إلا بإذنہ فإن فعلت ذلک کان الوزر علیہا والأجر لہ ومن حقہ أن لا تصوم تطوعًا إلا بإذنہ فإن فعلت جاعت وعطشت ولم یتقبل منہا ومن حقہ أن لا تخرج من بیتہ إلا بإذنہ (وقولہ) فحقوق الزوج علی الزوجۃ کثیرۃ وأہمہا أمران إحدہما الصیانۃ والستر والآخر ترک المطالبۃ مما وراء الحاجۃ والتعفف عن کسبہ إذا کان حراما (وقولہ) وتکون قانعۃ من زوجہا بما رزق اﷲ وتقدم حقہ علی حق نفسہا وحق سائر أقاربہا متنظفۃ في نفسہا مستعدۃ في الأحوال کلہا للتمتع بہا إن شاء شفقۃ علی أولادہا حافظۃ للسر علیہم قصیرۃ اللسان عن سب الأولاد ومراجعۃ الزوج (وقولہ) ومن آدابہا أن لا تتفاخر علی الزوج بجمالہا ولا تزدري زوجہا بقبحۃ (وقولہ) ولا ینبغي أن توذي زوجہا بحال".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1858 Jan 23, 2021
Miyan biwi ke faraiz aur huqooq or har ek ki ikhlaqi zimmedariyan, Rights of husband and wife and ethical responsibilities

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Nikah

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.