سوال:
السلام علیکم، حضرت! اگر ملازمت وغیرہ کی مصروفیات کی وجہ سے عصر کی نماز سے پہلے قیلولہ کا موقع نہ ملے تو کیا عصر کی نماز کے بعد 10 منٹ قیلولہ کی نیت سے لیٹا جا سکتا ہے؟ جزاک اللہ خیرا
جواب: "قیلولہ " کا معنی ہے: "دن کے درمیانی حصہ میں آرام کرنا"، خواہ نیند آئے یا نہ آئے.
"قیلولہ" نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا معمول رہا ہے، صحابہ رضی اللہ عنہم کا عام معمول "غداء " کے بعد سونے کا ملتا ہے، "غداء "دوپہر کے اس کھانے کو کہتے ہیں، جو ظہر سے پہلے کھایا جاتا ہے، صحابہ کرام کا عام دنوں میں دوپہر کا کھانا ظہر سے پہلے کھانے کا معمول تھا، البتہ جمعہ کے دن کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ جمعہ کی نماز کے بعد کھانا اورقیلولہ ہوتا تھا۔
عصر کی نماز کے بعد قیلولہ کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، بلکہ نماز عصر کے بعد سے مغرب تک بلا کسی عذر کے سونا مکروہ ہے، ایک ضعیف حدیث میں آتا ہے کہ عصر کے بعد سونے سے عقل زائل ہو جاتی ہے، اس لیے بہتر تو یہی ہے کہ ظہر سے پہلے کھانا کھا کر قیلولہ کی عادت بنائی جائے۔
البتہ اگر ظہر کے بعد کھانا کھا کر قیلولہ کی نیت سے تھوڑی دیر آرام کر لیا جائے، تب بھی قیلولہ کی سنت پوری ہوجائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مسند احمد: (رقم الحدیث: 12401)
فَكَانَ أَبُو طَلْحَةَ يَقُومُ صَلَاةَ الْغَدَاةِ يَتَوَضَّأُ، وَيَأْتِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيُصَلِّي مَعَهُ، وَيَكُونُ مَعَهُ إِلَى قَرِيبٍ مِنْ نِصْفِ النَّهَارِ، فَيَجِيءُ فَيَقِيلُ وَيَأْكُلُ ، فَإِذَا صَلَّى الظُّهْرَ تَهَيَّأَ وَذَهَبَ فَلَمْ يَجِئْ إِلَى صَلَاةِ الْعَتَمَةِ۔
عمدة القاري: (33/15)
"والقائلة هي القيلولة وهي النوم بعد الظهيرة، وقال ابن الأثير: المقيل والقيلولة الاستراحة نصف النهار وإن لم يكن معها نوم، يقال: قال يقيل قيلولة فهو قائل".
فتح الباري: (69/11)
"( قوله: باب القائلة بعد الجمعة ) أي بعد صلاة الجمعة وهي النوم في وسط النهار عند الزوال وما قاربه من قبل أو بعد، قيل لها: "قائلة"؛ لأنها يحصل فيها ذلك وهي فاعلة بمعنى مفعولة مثل عيشة راضية، ويقال لها أيضاً: "القيلولة"، وأخرج بن ماجة وبن خزيمة من حديث بن عباس رفعه: استعينوا على صيام النهار بالسحور، وعلى قيام الليل بالقيلولة. وفي سنده زمعة بن صالح وفيه ضعف، وقد تقدم شرح حديث سهل المذكور في الباب في أواخر كتاب الجمعة، وفيه إشارة إلى أنها كانت عادتهم ذلك في كل يوم، و ورود الأمر بها في الحديث الذي أخرجه الطبراني في الأوسط من حديث أنس رفعه، قال: قيلوا فإن الشياطين لاتقيل. وفي سنده كثير بن مروان وهو متروك. وأخرج سفيان بن عيينة في جامعه من حديث خوات بن جبير رضي الله عنه موقوفاً، قال: نوم أول النهار حرق، وأوسطه خلق، وآخره حمق. وسنده صحيح ".
مرقاۃ المفاتیح: (262/3، ط: مکتبۃ الأشرفیۃ، دیوبند)
قال الأزہري: القیلولۃ والمقیلُ عند العرب الاستراحۃ نصف النہار، وإن لم یکن مع ذٰلک نوم بدلیل قولہ: {وَاَحْسَنُ مَقِیْلاً} والجنۃ لا نوم فیہا۔
الفقہ الإسلامي و أدلته: (404/1)
وتستحب القائلۃ أو القیلولۃ : أي الاستراحۃ وسط النہار، وإن لم یکن مع ذٰلک نوم، شتائً أو صیفًا۔
حاشیۃ سنن ابن ماجۃ: (ص: 77)
القیلولۃ : وہي الاستراحۃ في نصف النہار۔
الھندیة: (376/5)
"ويكره النوم في أول النهار وفيما بين المغرب والعشاء".
الفقه الإسلامي و أدلته: (413/1)
ويكره النوم بعد العصر لحديث: «من نام بعد العصر، فاختل عقله، فلا يلومن إلا نفسه»
کذا فی فتاوی بنوری تاؤن: رقم الفتوی: 143806200008
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی