عنوان: انسان کو کتنا اختیار دیا گیا ہے اور مسئلہ تقدیر کیا ہے؟ نیز مسئلہ تقدیر سمجھنے کے لیے چند عقلی دلائل(6616-No)

سوال: جب انسان کے مرنے تک کے سارے معاملات اللہ پاک نے لکھ دیے ہیں، جس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسان ایک مجبور چیز کا نام ہے اور اس کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔ براہ کرم آپ اس بارے میں وضاحت فرمائیں کہ کیا واقعی انسان کو کچھ اختیار نہیں دیا گیا ہےاور اگر دیا گیا ہے تو کتنا دیا گیا ہے؟

جواب: جواب سے پہلے بطور تمہید چند باتیں سمجھنا ضروری ہے:
احکام الٰہی دو طرح کے ہوتے ہیں:
(١) تشریعی احکام: جن میں شریعت کی طرف سے ایک قانون بتلایا جاتا ہے اور اس کی خلاف ورزی کی سزا بھی بتلا دی جاتی ہے، مگر کرنے والے کو کسی جانب پر مجبور نہیں کیا جاتا، بلکہ اس کو ایک درجہ کا اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے اختیار سے اس قانون کی پابندی کرے یا خلاف ورزی کرے اور ایسے احکام عموماً ان مخلوقات پر عائد ہوتے ہیں جو ذوی العقول (عقل والے) کہلاتے ہیں، جیسے: انسان اور جِن۔
(٢) تکوینی اور تقدیری احکام: اللہ تعالی کی طرف سے ان احکام کی تنفیذ جبری ہوتی ہے،کسی کی مجال نہیں کہ سرِمو ان کے خلاف کر سکے، ان احکام کی تعمیل کل مخلوقات کرتی ہیں، ان میں انسان وجن بھی شامل ہیں، تکوینی احکام میں ان کے لیے جو مقدر کردیا گیا ہے، مومن ہو یا کافر، متقی ہو یا فاسق سب کے سب اسی تقدیری قانون کے مطابق چلنے پر مجبور ہیں۔(ماخذہ معارف القرآن: سورة الانشقاق، 703/8، ط: ادارة المعارف کراچی )
مسئلہ تقدیر:
تقدیر کا مسئلہ ہمارے ایمانیات کا حصہ ہے اور اکثر لوگوں کو شیطان اس بارے میں وسوسے ڈالتا ہے ، اس لیے اس مسئلہ کو تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے۔ "مسئلہ تقدیر" سے متعلق چند باتیں سمجھنا ضروری ہیں:
۱) تقدیر کا عقیدہ قرآن مجید اور احادیثِ مبارکہ میں مذکور ہے اور یہ حضور اکرم ﷺ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تمام اہلِ حق کا متفق علیہ عقیدہ ہے، اس لئے اس عقیدہ سے انکار یا اس کا مذاق اُڑانے سے آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔
۲) اس مسئلے میں بحث سے اشکالات اور شکوک وشبہات کا دروازہ کھلتا ہے، اسی لیے حضور ﷺ نے اس مسئلے میں بحث کرنے سے ہی منع فرمایا ہے، چنانچہ سنن ترمذی کی روایت ہے: حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم تقدیر کے مسئلہ پر بحث کر رہے تھے کہ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لائے، ہمیں بحث میں الجھے ہوئے دیکھ کر بہت غصہ ہوئے، یہاں تک کہ چہرہٴ انور ایسا سرخ ہوگیا، گویا رخسارِ مبارک میں انار نچوڑ دیا گیا ہو اور بہت ہی تیز لہجے میں فرمایا: ''کیا تمہیں اس بات کا حکم دیا گیا ہے؟ کیا میں یہی چیز دے کر بھیجا گیا ہوں؟ تم سے پہلے لوگ اس وقت ہلاک ہوئے جب انہوں نے اس مسئلہ میں جھگڑا کیا، (لہذا) میں تمہیں قسم دلاتا ہوں کہ اس مسئلہ میں بحث ومباحثہ نہ کرو۔ (جامع ترمذی، حدیث نمبر:2133)
۳) مسئلہ تقدیر سمجھنے کے لئے عقلی دلائل:
مسئلہ تقدیر کے سلسلے میں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ یہ بات صحیح ہے کہ ہر بات پہلے سے لکھی ہوئی ہے، لیکن لکھا ہوا کیا ہے؟ یہ بات پہلے سے کسی کو نہیں پتہ، لہذا اگر ہمیں پہلے سے پتہ ہو مثلاً کہ ہماری تقدیر میں جھوٹ بولنا لکھا ہوا ہے اور پھر ہم جھوٹ بولیں اور قیامت میں اللہ رب تعالی اس پر سزا دیں تو ہم اللہ سے کہہ سکتے ہیں کہ یااللہ! میری تقدیر میں تو جھوٹ بولنا لکھا ہوا تھا، اسی لیے میں نے جھوٹ بولا، کیونکہ تقدیر میں ایسا ہی لکھا ہوا تھا تب تو یہ بات صحیح ہوتی، لیکن چونکہ ہمیں پہلے سے اس کا علم نہیں دیا گیا، اس لیے اللہ تعالی کہہ سکتا ہے کہ کیا تمہیں پہلے سے اس کا علم تھا کہ ہماری تقدیر میں تمہارا جھوٹ بولنا لکھا ہوا ہے؟ چنانچہ یہی آزمائش ہے، اسی لیے ہمیں نیکی پر اجر ملتا ہے اور گناہ پر پکڑ ہوتی ہے، ورنہ ہمیں نیکی پر اجر نہیں ملنا چاہیئے کہ پہلے سے ہمارے نصیب اور تقدیر میں نیکی کرنا لکھا ہوا ہے۔
چنانچہ اگر کوئی زہر کھا کر مرجائے تو خودکشی اور حرام موت مرے گا، اب اگر اللہ تعالی اس سے پوچھے کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ تو وہ کہہ سکتا ہے کہ یہ موت کا وقت تو پہلے سے اسی وقت لکھا ہوا تھا، میں نے اسی وقت مرنا ہی تھا، سو میں نے خود کشی کر کے تقدیر کے مطابق کام کیا ہے تو اس پر اللہ تعالی کہہ سکتے ہیں کہ وہ تو میں نے لکھا ہوا تھا، تمہیں تھوڑی اس کا علم دیا گیا تھا کہ اس وقت مرنا ہے۔
مزید ایک اور مثال سے یہ بات سمجھیے کہ زید نے بکر کا قتل کردیا، اب بکر کے وارثین زید سے قصاص لینے پہنچے تو زید کہنے لگا کہ بھائی! ہر آدمی کی موت کا وقت مقرر ہے اور اس پر ہم سب کا ایمان ہے، لہذا میں نے تو ایسا کام کیا جو ہونا ہی تھا اور اللہ تعالی نے لکھا ہوا تھا، اس کو کوئی ٹال نہیں سکتا ہے، اب آپ بتائیے کہ دنیا کا کوئی قانون زید کی یہ دلیل کہ وہ تقدیر کے آگے مجبور محض ہے، مانے گا؟ نہیں! بالکل نہیں! بلکہ ہر قانون اسے سزا دے گا اور کہے گا کہ ٹھیک ہے کہ ہر آدمی کی موت کا وقت مقرر ہے، لیکن تمہیں اس کا علم کیسے ہوا کہ اس کی موت کا وقت آچکا ہے؟ چنانچہ زید کو دنیا کا ہر قانون سزا کا مستحق سمجھتا ہے۔
لہذاتقدیر تو برحق ہے، لیکن تقدیر کی وجہ سے کوئی معذور نہیں بن جاتا، کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ یہ گناہ میرے لئے حلال ہوگیا اور یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ اللہ تعالی مجھے جہنم ہی میں کیوں ڈال رہا ہے؟ جبکہ ہر چیز پہلے سے لکھی ہوئی ہے۔
۴) تقدیر بنیادی طور پر" علم اللہ السابق" کا نام ہے، چونکہ اللہ تعالی ماضی ، مستقبل اور تمام چیزوں کا علم رکھتا ہے، لہذا اس کو پتہ ہے کہ کون جنت میں جائے گا اور کون جہنم میں جائے گا؟ اللہ تعالی کے اسی علم کا نام"تقدیر" ہے۔ اس سے زیادہ باریکی میں تقدیر کے مسئلے میں جانا جائز نہیں ہے اور یہ طے ہے کہ اللہ پاک آخرت میں عدل کے مطابق فیصلہ فرمائیں گے کہ جنتی کو جنت میں اور جہنمی کو جہنم میں ڈالیں گے، بس یہ ایک آزمائش ہے کہ ہمیں اپنے انجام کا علم نہیں ہے، اس لیے نیک کام کرتے رہنا چاہیے، تاکہ جنت کے مستحق ہوجائیں اور جہنم سے بچ جائیں۔
خلاصہ کلام:اللہ تعالیٰ نے آدمی کی قسمت میں جو کچھ لکھا ہے، اسے تقدیر میں لکھ دینے کے باوجود آدمی کو ایک طرح کا اختیار دے رکھا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وھدینه النجدین (ہم نے اس کو دونوں راستے دکھادیے، سوره بلد، آیت نمبر:10) اسی اختیار پر اس کو اچھا یا برا بدلہ ملے گا اور یہ بات عقل بھی تسلیم کرتی ہے کہ اگر آدمی بالکل مجبور محض پتھر کی طرح ہوتا تو اس سے باز پرس کرنا ہی بیکار تھا، اللہ رب العزت نے جب سب کچھ لکھنے کے باوجود انسان کو حساب وکتاب کا مکلف بنایا ہے تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ انسان بالکل مجبور بھی نہیں ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تقدیر کے معاملے میں شیطان ہمیشہ دینی معاملات میں وسوسے ڈالتا ہے، چنانچہ کوئی بھی شخص کاروبار، ملازمت یا کسی دنیاوی کام کے بارے میں یہ نہیں کہتا کہ جب اللہ نے میری تقدیر میں رزق پہلے سے لکھ دیا ہے تو میرے کاروبار اور ملازمت پر جانے سے کیا فرق پڑے گا؟ وہ رزق تو مجھے ہر حالت میں مل کر ہی رہے گا، بلکہ انسان ان معاملات کے لیے صبح سے لے کر شام تک تگ و دو کرتا ہے اور اس سلسلے میں تقدیر کا بہانہ استعمال نہیں کرتا ہے۔
امید ہے کہ ان چند گزارشات سے تقدیر کا مسئلہ سمجھنے میں کافی حد تک آسانی ہوگئی ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن الترمذی: (باب ما جاء فی التشدید فی القدر، 479/2، ط، مکتبة رحمانیة)

عن ابی ھریرۃ قال خرج علینا رسول اللہ ﷺ و نحن نتنازع فی القدر فغضب حتی احمر وجھہ حتی کانما فقیء فی وجنتیہ الرمّان ، فقال : "أبھذا أمرتم ام بہذا أرسلت الیکم ؟ انما ہلک من کان قبلکم حین تنازعوا فی ھذا الامر ، عزمت علیکم عزمت علیکم الا تنازعوا فیہ".

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1674 Feb 01, 2021
Jab saab kuch taqdeer men likha ja chuka hai, tou insaan ko kiya ikhtiyar diya gaya hai, When everything is written in destiny, what authority is given to man?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Beliefs

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.