سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! مسئلہ یہ معلوم کرنا ہے کہ ایک شخص نے کسی عزیز کی بیٹی لے کر پرورش کی، لا علمی کی وجہ سے خود کو والد کہلوایا اور تمام ڈاکومینٹس وغیرہ میں ولدیت میں اپنا ہی نام لکھوایا، اب تمام کاغذات میں ولدیت کی تبدیلی تو ممکن نہیں ہے، کچھ دن بعد اسی لڑکی کا نکاح ہے، کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ایجاب وقبول میں اصل والد کی طرف نسبت کی جائے اور فارم میں سوتیلے والد کا نام لکھا جائے؟
جواب: صورت مسئولہ میں اگر عقد نکاح کرتے وقت لڑکی کی نسبت حقیقی والد کی طرف اس طرح کردی جائے، جس سے وہ لڑکی، عاقدین اور گواہوں کے ہاں متعین ہوجائے، اور انہیں معلوم ہو جائے کہ جس کا نکاح منعقد کیا جارہا ہے، وہ یہی لڑکی ہے، تو نکاح شرعاً درست ہو جائے گا، اگرچہ دستاویزات میں غیر والد کا نام درج ہو۔
قرآن و سنت میں حقیقی باپ کے بجائے کسی اور کی طرف نسبت کرنے کو ناجائز قرار دیا گیا ہے، یہ سخت گناہ کا کام ہے، اس سے توبہ کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (الأحزاب، الایة: 4- 5)
وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَo ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۔۔۔۔الخ
صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 7266)
عن سعد رضي الله عنه، قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: "من ادعى إلى غير أبيه، وهو يعلم أنه غير أبيه، فالجنة عليه حرام"
رد المحتار: (26/3، ط: سعید)
لأن الغائبة يشترط ذكر اسمها واسم أبيها وجدها، وتقدم أنه إذا عرفها الشهود يكفي ذكر اسمها فقط، خلافاً لابن الفضل، وعند الخصاف يكفي مطلقاً، والظاهر أنه في مسألتنا لا يصح عند الكل، لأن ذكر الاسم وحده لا يصرفها عن المراد إلى غيره، بخلاف ذكر الاسم منسوباً إلى أب آخر، فإن فاطمة بنت أحمد لا تصدق على فاطمة بنت محمد، تأمل، وكذا يقال فيما لو غلط في اسمها۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی