سوال:
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا : ایک دفعہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا : اللہ اکبر کبیرا، والحمد للہ کثیرا، وسبحان اللہ بکرۃ واصیلا رسول اللہ ﷺنے پوچھا : فلاں فلاں کلمہ کہنے والا کون ہے؟ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا : اللہ کےرسول ! میں ہوں، آپ نے فرمایا:’مجھے ان پر بہت حیرت ہوئی، ان کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے گئے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے جب سے آپ سے یہ بات سنی ، اس کے بعد سے ان کلمات کو کبھی ترک نہیں کیا۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1358) مفتی صاحب ! یہ دعا نماز میں پڑھنی ہے یا دیگر اوقات میں؟ اصلاح فرمائیں۔
جواب: تکبیر تحریمہ اور تلاوت کے درمیان پڑھی جانے والی دعا کو "دعائے افتتاح" کہا جاتا ہے، احادیث صحیحہ میں کئی دعاؤں کا ذکر ملتا ہے، مذکورہ دعا بھی ان میں سے ایک ہے، اس پر اتفاق ہے کہ ان میں سے کوئی بھی دعا نماز میں پڑھنا جائز ہے، اور اس سے نفس سنت ادا ہو جاتی ہے، البتہ امام ابو حنیفہ اور امام احمد رحمہما اللہ کے ہاں "ثناء" (سبحانک اللہم...الخ) پڑھنا افضل ہے۔
اور چونکہ حدیث شریف میں امام کو مختصر نماز پڑھانے کا حکم دیا گیا ہے، اس لئے فرض نماز میں صرف "ثناء" پڑھی جائے اور دیگر دعائیں تہجد اور نوافل میں پڑھنی چاہئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 242)
عن أبي سعيد الخُدْرِي -رضي الله عنه- قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا قام من الليل كَبَّر، ثم يقول: "سُبْحَانك اللَّهم وبحَمْدِك وتبارك اسْمُك، وتعالى جَدُّك، ولا إله غَيْرك"، ثم يقول: "لا إله إلا الله" ثلاثا، ثم يقول: "الله أكبر كبيرا" ثلاثا، "أعُوذُ بالله السَّميع العليم من الشَّيطان الرَّجيم من هَمْزِه، ونَفْخِه، ونَفْثِه"، ثم يقرأ.
صحیح مسلم: ( كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب ما يقال بين تكبيرة الإحرام والقراءة، رقم الحدیث:1358، ط: داراحیاء التراث)
عن ابي الزبير ، عن عون بن عبد الله بن عتبة ، عن ابن عمر ، قال: " بينما نحن نصلي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذ قال رجل من القوم: الله اكبر كبيرا، والحمد لله كثيرا، وسبحان الله بكرة واصيلا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من القائل كلمة كذا وكذا؟ "، قال رجل من القوم: انا يا رسول الله، قال: " عجبت لها، فتحت لها ابواب السماء "، قال ابن عمر: فما تركتهن، منذ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول ذلك.
صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 703، ط: دار المعرفۃ)
إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِلنَّاسِ، فَلْيُخَفِّفْ، فَإِنَّ مِنْهُمُ الضَّعِيفَ وَالسَّقِيمَ وَالكَبِيرَ، وَإِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِنَفْسِهِ فَلْيُطَوِّلْ مَا شَاءَ.
الدر المختار: (488/1، ط: سعید)
وقرأ، کما کبر "سبحانک اللہم"، تارکا "وجل ثناءک" آلا فی الجنازۃ، مقتصرا علیہ، فلا یضم : "وجھت وجھی" الا فی النافلۃ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی