سوال:
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انار کے ایک دانہ کو اٹھایا اور اس کو کھالیا، ان سے کہا گیا کہ آپ نے یہ کیوں کیا؟ انہوں نے فرمایا: مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ زمین کے ہر انار میں جنت کے دانوں میں سے ایک دانہ ڈالا جاتا ہے، شاید یہ وہی ہو۔ ( طبرانی بسند صحیح ) کیا یہ حدیث صحیح اور ثابت ہے؟
جواب: سوال میں دریافت کردہ روایت حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے دو طرح سے منقول ہے:
(1) مرفوعاً: جس میں اس روایت کو نبیﷺ کی جانب منسوب کیا گیا ہے۔
(2)موقوفاً: ا س روایت کا قائل حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو قرار دیا گیا ہے۔
تاہم دونوں روایات کی سند کمزور ہے، البتہ اس کو موضوع (من گھڑت) قرار دیا جانا درست نہیں ہے، سو اس روایت کو آگے نقل کرنے کی گنجائش ہے۔
مذکورہ روایت پر محدثین کے کلام کا خلاصہ ذیل میں نقل کیا جاتا ہے، اس سے قبل مرفوع و موقوف دونوں روایات کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
مرفوع روایت کا ترجمہ:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ دنیا میں موجود انار میں جنت کے دانوں میں ایک دانہ ضرور ڈالا جاتا ہے۔
موقوف روایت کا ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے متعلق آتا ہے کہ آپ انار کا دانہ اٹھا کر کھا لیا کرتے تھے، ان سے عرض کیا گیا: اے ابن عباس، آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ تو آپ رضی اللہ عنہما جواب میں فرماتے: مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ زمین میں موجود انار جنت کے انار کے ایک دانہ پر ضرور مشتمل ہوتا ہے، سو میں اس دانہ کو اٹھا کر اس لیے کھاتا ہوں کہ ہو سکتا یہ دانہ وہی ہو جو جنت کے انار کا ہے۔
مذکورہ مرفوع روایت کو امام دیلمی رحمہ اللہ نے اپنی "مسند"میں اور ابن عدی رحمہ اللہ نے "الکامل" میں ذکر کیا ہے، جبکہ موقوف روایت کو امام طبرانی رحمہ اللہ نے "المعجم الکبیر" میں، أبو نعيم اصبہانى رحمہ اللہ نے "حلیۃ الاولیاء" میں، اور بیہقی رحمہ اللہ نے "شعب الإیمان" میں نقل کیا ہے۔
دونوں روایات پر محدثین کے کلام کا خلاصہ:
مرفوع روایت کو ابن عدی رحمہ اللہ نے "الکامل فی ضعفاء الرجال" میں دو سندوں سے نقل کرنے کے بعد تبصرہ کرتے ہوئےدونوں سندوں کو باطل قرار دیا ہے، اسی طرح علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "الموضوعات" میں انہی دو سندوں کے ساتھ روایت کو نقل کیا ہے، اور راویوں سے متعلق کلام کرتے ہوئے فرمایا کہ (مرفوع حدیث کی) پہلی سند میں راوی "عبد السلام بن عبید" ہے، جس کے متعلق ابن حبان رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ وہ "سرقہ حدیث "کے مرتکب تھے، لہذا ان کی روایت کو بطور دلیل بیان کرنا کسی طور بھی جائز نہیں ہے اور دوسری سند میں "محمد بن ولید" راوی موجود ہے، جس کے متعلق ابن حبان رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ شخص خود ساختہ روایت کو آگے چلتا کرتے اور "سرقہ حدیث" کے مرتکب تھے، اس کے علاوہ اسانید اور متون میں الٹ پھیر کیا کرتے تھے۔(الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي، ترجمة محمد بن الوليد بن أبان القلانسي البغدادي، 543/7، الکتب العلمية)
البتہ علامہ سخاوی رحمہ اللہ مذکورہ روایت سے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً منقول ہے، اور اس کی سند میں ضعف ہے، یہی بات (رفع سے متعلق) علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی ذکر کی ہے۔ اسی بات کو علامہ عجلونی رحمہ اللہ نے بھی "کشف الخفاء" میں ذکر کیا ہے۔(المقاصد الحسنة فیما اشتهر علی الألسنة لشمس الدین السخاوي، حرف المیم، 587/1، المحقق: محمد عثمان الخشت، الناشر: دار الكتاب العربي - بيروت)
چنانچہ ابن عراق الکنانی نے اپنی کتاب " تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة " میں ابن جوزی کی جانب سے روایات کو موضوع قرار دیئے جانے کے بعد تعاقب پیش کیا ہے، لکھتے ہیں:
" پہلی سند کے راوی "محمد بن ولید" سے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے "لسان المیزان" میں بحوالہ ابن حبان نقل کیا ہے کہ موصوف شام میں سکونت اختیار کرنے کے بعد اہلیانِ شام کو حدیثیں بیان کرتے تھے، موصوف عبیداللہ بن موسی اور اہل عراق سے روایات نقل کرتے تھے، ان سے ہمارے مشایخ بالخصوص قطان رحمہم اللہ نے روایت نقل کی ہے، موصوف کبھی کبھی غلطی کرجاتے اور بعض اوقات غیر معروف مضمون بیان کرتے تھے۔ مذکورہ روایت کے حوالہ سے "معجم کبیر" میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے موقوفاً روایت شاہد کے درجہ میں ہے۔
پھر خود فرماتے ہیں کہ "اس موقوف روایت سے متعلق علامہ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کے تمام راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں، اور امام بیہقی نے بھی" شعب الایمان" میں روایت کو نقل کیا ہے"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل :
المجعم الکبیر للطبراني: (من مناقب عبدالله بن عباس، 263/10، رقم الحدیث:10611، المحقق: حمدي بن عبد المجيد السلفي، دار النشر: مكتبة ابن تيمية - القاهرة)
عن جعفر، أن ابن عباس كان يأخذ الحبة من الرمان فيأكلها، قيل له: يا ابن عباس، لم تفعل هذا؟ قال: «إنه بلغني أنه ليس في الأرض رمانة تلقح إلا بحبة من حب الجنة، فلعلها هذه»
وأیضا أخرجه أبو نعیم في "حلیة الأولیاء" (ترجمة عبدالله ابن عباس، 314/1، السعادة) والبيهقي في "شعب الإیمان (باب أكل اللحم، في 105/8، رقم الحدیث:5559، ط:مکتبة الرشد) عن ابن عباس موقوفا۔
الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي، ترجمة محمد بن الوليد بن أبان القلانسي البغدادي، 543/7، الکتب العلمية)
أخرج ابن عدي في "الکامل في ضعفاء الرجال" هذه الروایة رفعا بطریقین:
1۔ روح بن عبد المجيب، حدثنا محمد بن الوليد، حدثنا أبو عاصم، عن ابن جريح، عن ابن عجلان، عن أبيه، عن ابن عباس، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "ما من رمان من رمانكم، إلا وهو يلقح بحبة من رمان الجنة".
2۔ زيد بن عبد العزيز، قال: حدثنا محمد بن الوليد، حدثنا أبو عاصم، أخبرنا ابن جريج، عن أبيه، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله.
وقال: قال الشيخ(ابن عدي): وهذا حديث باطل بأي إسناد كان، الأولى والثانية. والحدیث ذکره ابن الجوزی فی الموضوعات لابن الجوزي (2/ 285) باب فضيلة الرمان بطریقین ، وقال: وفي الطريق الأول عبد السلام بن عبيد.قال ابن حبان: كان يسرق الحديث لا يجوز الاحتجاج به بحال. وفي الطريق الثاني محمد بن الوليد. قال ابن حبان: كان يضع الحديث ويوصله ويسرق، ويقلب الاسانيد والمتون۔
تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة لنور الدین ابن عراق الکناني: (الفصل الثاني، 243/2، المحقق: عبد الوهاب عبد اللطيف عبد الله محمد الصديق الغماري، الناشر: دار الكتب العلمية - بيروت)
وقال ابن عراق الكنانى رحمه الله في "تنزيه الشريعة": حديث"ما من رمانة من رمانكم هذا إلا ويلقح بحبة من رمان الجنة" (عد ابن الجوزي) من حديث ابن عباس، ولا يصح في الأول "محمد بن الوليد بن أبان"، وفي الثاني "عبد السلام بن عبيد"۔ (تعقب) " بأن الحافظ ابن حجر ذكر في اللسان: أن ابن حبان ذكر "محمد بن الوليد" في "الثقات"، وقال: "ربما أخطأ وأغرب"۔ انتهی۔ ولحديثه شاهد عن ابن عباس موقوفا أخرجه الطبراني (قلت: أي الکناني) قال الهيثمي: رجاله رجال الصحيح، والله تعالى أعلم۔ وأخرجه البيهقي في "الشعب".
مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، لأبي الحسن الهيثمي: (کتاب الأطعمة، باب في أكل الرمان، 45/5، رقم الحدیث:8039، المحقق: حسام الدين القدسي، الناشر: مكتبة القدسي، القاهرة)
ونقل الهیثمي في "مجمع الزوائد ومنبع الفوائد" تلک الروایة عن ابن عباس «أنه كان يأخذ الحبة من الرمان فيأكلها قيل له: يا ابن عباس لم تفعل هذا؟ قال: إنه بلغني: " أنه ليس في الأرض رمانة تلقح إلا بحبة من حب الجنة». فلعلها هذه. وقال الهيثمي: رواه الطبراني ورجاله رجال الصحيح.
المقاصد الحسنة فیما اشتهر علی الألسنة لشمس الدین السخاوي، (حرف المیم، 587/1، المحقق: محمد عثمان الخشت، الناشر: دار الكتاب العربي - بيروت)
وقال السخاوي في "المقاصد الحسنة ": حديث "ما من رمانة من رمانكم هذا، إلا وهي تلقح بحبة من رمان الجنة، الديلمي وابن عدي في "كامله"، عن ابن عباس به مرفوعا۔ وسنده ضعيف، كما قاله الذهبي في ترجمة محمد بن الوليد بن أبان أبي جعفر القلانسي، راويه عن أبي عاصم عن ابن جريج عن ابن عجلان عن أبيه عن ابن عباس به مرفوعا.
لسان المیزان لابن حجر العسقلاني: (ترجمة"محمد بن الولید"، 569/7، المحقق: عبد الفتاح أبو غدة، الناشر: دار البشائر الإسلامية)
قال الحافظ ابن حجر في ترجمة"محمد بن الولید": قال ابن حبان في الثقات: محمد بن الوليد بن أبان البغدادي، سكن الشام وحدثهم، يروي عن عُبَيد الله بن موسى وأهل العراق، حَدَّثَنا عنه القطان وشيوخنا، ربما أخطأ وأغرب. وأورد له ابن عديّ عدة أحاديث يجزم في بعضها بالبطلان وفي بعضها بأنه سرقه ووصفه أيضًا بأنه يقلب الأسانيد والمتون.
واللہ تعالى اعلم بالصواب
دار الإفتاء الإخلاص،کراچی