سوال:
السلام علیکم، ایک مسئلہ پوچھنا ہے، اگر کسی شخص نے کئی سال پہلے پرائز بانڈ کے انعامی رقم50000 (پچاس ہزار) سے گھر خریدا اور اس میں مزید کچھ پیسے لگا کر مرمت کراکر رہنے لگے، اب اگر وہ گھر بیچتا ہے تو موجودہ وقت کے حساب سے وہ گھر کئی لاکھ کا بکتا ہے، تو معلوم یہ کرنا تھا کہ اس گھر کی جو موجودہ قیمت ہے، وہ پوری سود کے زمرے میں آئے گی یا صرف پرائز بانڈ کی اصل رقم جو 50000 تھی یا اسکے علاوہ کچھ اور حکم ہے۔؟
براہ کرم اس سلسلے میں رہنمائی فرمایئے۔
جواب: صورت مسئولہ میں سود کی رقم پچاس ہزار صدقہ کرنا واجب ہے، البتہ اس وقت جو نفع اس پر حاصل ہورہا ہے، اس کے استعمال کرنے کی گنجائش ہے، تاہم احتیاط اور تقویٰ تمام مال کے صدقہ کرنے میں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الایة: 278- 279)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَo فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَo
الدر المختار مع رد المحتار: (99/5، ط: دار الفکر)
والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه
و فیہ ایضاً: (235/5، ط: دار الفکر)
اكتسب حراما واشترى به أو بالدراهم المغصوبة شيئا. قال الكرخي: إن نقد قبل البيع تصدق بالربح وإلا لا وهذا قياس
(قوله اكتسب حراما إلخ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اه.
بذل المجہود: (359/1، ط: مرکز الشیخ أبي الحسن الندوي)
یجب علیہ أن یردہ إن وجد المالک وإلا ففي جمیع الصور یجب علیہ أن یتصدق بمثل ملک الأموال علی الفقراء۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی