سوال:
کیا قرآن کریم کی دلہن سوره رحمن کو کہا جاسکتا ہے اور قرآن کریم کا نور کس سورت کو کہا جاتا ہے؟
جواب: علامہ سیوطی ؒ (م 911ھ)نے لکھا ہے کہ ’’عروس القرآن ‘‘سورۃ الرحمٰن کو کہا جاتا ہے۔(۱)عروس کا معنی ہے زینت و خوب صورتی، یعنی قرآن کریم کی زینت اور خوب صورتی سورۂ رحمٰن ہے۔
اس حوالے سے ایک روایت بیان کی جاتی ہے جوحضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہر چیز کی ایک زینت اور خوب صورتی ہوتی ہے اور قرآن کریم کی زینت اور خوب صورتی سورۂ رحمٰن ہے۔(شعب الایمان،حدیث نمبر: 2494)(۲)
واضح رہے کہ مذکورہ حدیث سندا ًکمزور ہے، اس لیے اس حدیث کو بیان کرتے وقت ضعف کی صراحت کر دینی چاہیے۔
"زھراوین" یعنی چمکنے والی اور نور والی، یہ دو سورتوں سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران کو کہا جاتا ہے، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے: ”قرآن پڑھو اس لیے کہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کا سفارشی ہو کر آئے گا اور دو چمکنے والی سورتیں سورۂ البقرہ اور سورۂ آل عمران پڑھو، اس لیے کہ وہ میدان قیامت میں آئیں گی گویا دو بادل ہیں یا وہ سائبان یا دو ٹکڑیاں ہیں اڑتے جانور کی اور اپنے لوگوں کی طرف حجت کرتی ہوئی آئیں گی اور سورۃ بقرہ پڑھو کہ اس کا لینا یعنی پڑھنا برکت ہے، اور چھوڑنا اس کا حسرت ہے اور جادوگر لوگ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔“(صحیح مسلم،حدیث نمبر: 804،ط:داراحیاء التراث العربی)(۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
(۱) الإتقان في علوم القرآن للسيوطي:(1/ 195،ط: الهيئة المصرية العامة للكتاب)
الرحمن: سميت في حديث عروس القرآن أخرجه البيهقي عن علي مرفوعا.
(2)شعب الإيمان للبيهقي: (2/489،رقم الحديث: 2494، ط: دار الكتب العلمية)
عن علي رضي الله عنه قال : سمعت النبي صلى الله عليه و سلم يقول : لكل شيء عروس و عروس القرآن الرحمن.
والحديث أورده المناوي في’’فيض القدير‘‘(5/286، رقم الحديث: 7319) و قال: وفيه علي بن الحسن دبيس عده الذهبي في الضعفاء والمتروكين وقال الدارقطني: ليس بثقة.
(3)صحيح مسلم: (1/553،رقم الحديث: 804، ط: دار إحياء التراث العربي)
عن زيد ، أنه سمع أبا سلام ، يقول : حدثني أبو أمامة الباهلي ، قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ، يقول : اقرؤوا القرآن فإنه يأتي يوم القيامة شفيعا لأصحابه ، اقرؤوا الزهراوين البقرة ، وسورة آل عمران ، فإنهما تأتيان يوم القيامة كأنهما غمامتان ، أو كأنهما غيايتان ، أو كأنهما فرقان من طير صواف ، تحاجان عن أصحابهما ، اقرؤوا سورة البقرة ، فإن أخذها بركة ، وتركها حسرة ، ولا تستطيعها البطلة.
والحدیث أخرجه الإمام أحمد في ’’مسنده‘‘ (249/5، ( 22200) ، وابن الضريس في’’ فضائل القرآن‘‘ (59، ( 98) ، وابن حبان في ’’صحيحه‘‘ (1/322)( 116) ، والطبراني في ’’الأوسط‘‘(1/150)( 468) و في ’’الكبير‘‘ (8/188) ( 7542) ، والحاكم في ’’المستدرك‘‘ (1/752)( 2071) ، والروياني في ’’مسنده‘‘ (2/305)( 1254)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی