سوال:
اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ بِالَّیۡلِ وَ النَّہَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً فَلَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۚ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ (سورة البقرة، آلایة:274) ترجمہ: جو لوگ ( اللہ کی راہ میں ) شب و روز اپنے مال پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں تو ان کے لئے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور ( روزِ قیامت ) ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔ مفتی صاحب ! اس آیت میں ظاھر سے کیا مراد ہے؟
جواب: اس آیت مبارکہ میں ان لوگوں کی فضیلت بیان کی گئی ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے عادی ہیں اور جو تمام حالات و واقعات میں چاہے رات ہو یا دن ٬ خفیہ ہو یا علانیہ٬ ہر طرح سے خرچ کرتے رہتے ہیں۔
روح المعانی میں بحوالہ ابن عساکر نقل کیا گیا ہے کہ حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ نے چالیس ہزار دینار اللہ کی راہ میں اس طرح خرچ کئے کہ دس ہزار دن میں٬ دس ہزار رات میں٬ دس ہزار خفیہ اور دس ہزار علانیہ طور پر خرچ کئے۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی، آیت کا مفہوم بہت واضح ہے کہ صدقہ و خیرات کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں ہے٬ اسی طرح خفیہ اور علانیہ دونوں طرح سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا ثواب ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ خرچ کیا جائے٬ دکھلاوا اور نام و نمود مقصود نہ ہو، لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ جو کام کھلم کھلا کیا جائے٬ وہ رِیا اور دکھلاوا ہی ہوگا، بلکہ رِیا یہ ہے کہ اپنی بڑائی ظاہر کرنے کے واسطے، اپنی شہرت کی خاطر، اپنا کمال ظاہر کرنے یا عزت حاصل کرنے کے کیلئے کوئی کام کیا جائے تو وہ رِیا ہے٬ اور جو کام اللہ پاک کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا جائے (اور اللہ کی خوشنودی کسی موقع پر اعلان اور کھلم کھلا خرچ کرنے میں ہو) تو وہ رِیا نہیں ہے۔
اگرچہ صدقہ میں افضل یہی ہے کہ وہ خفیہ طریقے سے کیا جائے، کیونکہ اس میں رِیا کا احتمال بھی نہیں رہتا٬ لیکن بعض اوقات علانیہ صدقہ وخیرات کرنے میں دینی مصلحت ہوتی ہے (مثلاً: دوسروں کو ترغیب دینا مقصود ہو) تو ایسے موقع پر علانیہ صدقہ کرنا افضل ہے٬ نیز اس آیت مبارکہ میں چونکہ فرض و واجب صدقہ یعنی زکوٰۃ اور نفلی صدقات دونوں کا بیان ہے اور عام حالات میں نفلی صدقہ خفیہ طور پر افضل ہے٬ جبکہ فرض صدقہ علانیہ کرنا افضل ہے تاکہ اپنے اوپر سے الزام اور تہمت بھی نہ رہے کہ یہ زکوٰۃ ادا نہیں کرتا٬ لہذا حالات و واقعات کی مناسبت سے دونوں طرح صدقہ وخیرات کرنا ثواب کا کام ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس آیت مبارکہ میں ایک تو ان لوگوں کی تعریف کی گئی ہے جو ہر وقت اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے عادی ہیں٬ جب موقع آئے وہ خرچ کردیتے ہیں٬ نہ دن کا انتظار کرتے ہیں اور نہ ہی رات کا۔
دوسری بات اس آیت مبارکہ سے یہ معلوم ہوئی کہ صدقہ و خیرات کرنا کسی وقت اور کیفیت کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ دن ہو یا رات٬ خفیہ ہو یا علانیہ، ہر طرح سے صدقہ کرنے کا ثواب ہے٬ بشرطیکہ اخلاص سے کیا جائےاور دکھلاوا یا نام و نمود مقصود نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
تفسير القرطبي: (347/3، ط: دار الكتب المصرية)
وروي عن ابن عباس أنه قال: نزلت في علي بن أبي طالب رضي الله عنه، كانت معه أربعة دراهم فتصدق بدرهم ليلا وبدرهم نهارا وبدرهم سرا وبدرهم جهرا، ذكره عبد الرزاق
التفسير المظهري: (393/1، ط: مكتبة الرشدية)
"الذين ينفقون أموالهم بالليل والنهار سرا وعلانية يعنى في جميع الأوقات والأحوال كلما نزلت بهم حاجة محتاج عجلوا في قضائها ولم يؤخروه ولم يعللوا بوقت ولا حال"
معارف القرآن: (643/1، ط: مکتبة معارف القرآن)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی