عنوان: فرائض کے بعد اجتماعی دعا کا ثبوت اور درجہ(6815-No)

سوال: مفتی صاحب ! عرب علماء کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرض نماز کے بعد ہاتھ اُٹھانا ثابت نہیں ہے اور ہمارے علم میں کسی صحابی سے بھی ایسا منقول نہیں ہے، اور کچھ لوگوں کا ہر فرض نماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنا ایسی بدعت ہے، جس کا کوئی ثبوت نہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''جس نے وہ کام کیا، جس پر ہمارا اَمر نہیں تو وہ قابل ردّ ہے۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ''جس نے ہمارے اس امر میں (اسلام) کوئی نئی چیز داخل کی تو وہ قابل ردّ ہے۔
چنانچہ سعودی عرب کی 'دائمی کمیٹی برائے فتویٰ' نے اس موضوع پر یہ فتویٰ دیا ہے کہ امام کے سلام کے بعد ایک آواز سے اجتماعی دعا پر ایسی کوئی دلیل نہیں کہ جس کی بنا پر اسے مشروع سمجھا جائے۔
فرض نماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنا، چاہے صرف امام کی جانب سے ہو یا مقتدی کی جانب سے یا دونوں کی جانب سےہو، بدعت ہے، البتہ اس کے علاوہ دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ کئی احادیث میں اس کا ذکر آیا ہے۔
مفتی صاحب ! اس تمہید کے بعد معلوم یہ کرنا تھا کہ کیا واقعی اجتماعی دعا کرنا بدعت ہے؟

جواب: احادیث مبارکہ میں فرض نمازوں کے بعد دعا مانگنے کی بڑی فضیلت اور اہمیت بیان ہوئی ہے، اور اس وقت کو دعا کی قبولیت کا وقت بتایا گیا ہے، اور دعا نہ مانگنے پر وعید بھی آئی ہے، چنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے :
حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کس وقت کی دعا زیادہ مقبول ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ رات کے آخری حصے کی دعا اور فرض نمازوں کے بعد کی دعا۔(السنن الكبري للنسائي)
حضرت فضل ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز دو رکعت ہے۔ ہر دو رکعتوں میں تشہد ہے، خشوع، عاجزی اور مسکینی ہے، اور دونوں ہاتھوں کا اپنے رب کی طرف اٹھانا اس حالت میں کہ تم کہو یا رب رب (اے میرے رب رب) اور جس نے ایسا نہیں کیا وہ ایسا ویسا ہے۔ (سنن الترمذی)
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سےمروی  ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : اے معاذ! میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ ان کلمات کو ہر نماز کے بعد پڑھنا مت چھوڑنا:
’’أَللّٰھُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ۔
(سنن ابی داؤد)
محمد بن یحیی اسلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے عبد اللہ بن  زبیر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ  وہ نماز سے فارغ ہونے سے پہلے ہی ہاتھ اٹھائے کررہا ہے، جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب تک نماز سے فارغ نہ ہوتے تھے اس وقت تک (دعا کے لیے) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے ( لہذا تم بھی ایسا ہی کرو)۔
(المعجم الکبیر ، للطبرانی)
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے امام، مقتدی اور منفرد سب کے لیے فرض نماز کے بعد دعا کا سنت ہونا ثابت ہوتا ہے اور جب ان سب کے لیے یہ دعا سنت ہے، تو فرائض کے بعد امام اور مقتدی جب اس سنت پر عمل کرتے ہوئے دعا کریں گے، تو خود بخود اجتماع کی کیفیت بن جائے گی، لیکن یہ اجتماع ایک ضمنی چیز ہے اور جائز ہے، بذات خود مقصود نہیں ہے، اس کے لیے الگ سے صریح اور مستقل دلیل طلب کرنا اور دلیل نہ ملنے پر اس کو بدعت قرار دینا، درست نہیں ہے۔
خلاصہ یہ کہ فرائض کے بعد اجتماعی دعا کے تمام اجزاء، یعنی دعا، دعا کیلیے دونوں ہاتھ اٹھانا، آمین کہنا اور دعا کے بعد دونوں ہاتھ چہرے پر پھیرنا، سب احادیث طیبہ سے ثابت ہے، لہذا اس کے مجموعے کو بدعت کہنا درست نہیں ہے۔
البتہ یہ دعا آہستہ اور چپکے چپکے مانگنا افضل ہے؛ کیونکہ قرآن و سنت میں اس کی زیادہ ترغیب دی گئی ہے، لیکن اگر کبھی کبھی امام بلند آواز سے دعا کرے اور مقتدی اس پر آمین کہیں، تو تعلیماً یہ بھی جائز ہے، لیکن واضح رہے کہ فرائض کے بعد کی مذکورہ دعا کا درجہ تفصیلِ بالا کی روشنی میں زیادہ سے زیادہ سنتِ مستحبہ ہے، لہٰذا اس دعا کو اسی درجہ میں رکھتے ہوئے کرنا چاہیے، بعض لوگ اس دعا کو فرض و واجب کی طرح ضروری سمجھتے ہیں اور اسی درجہ میں اس پر عمل کرتے ہیں، سو اس کا ترک کرنا کبھی کبھار ضروری ہوگا۔
اسی طرح بعض لوگ اس کا التزام کرتے ہیں کہ امام اور مقتدی سب مل کر ہی دعا کریں، ابتداء بھی ساتھ ہو اور انتہاء بھی ساتھ ہو، اس التزام کا ترک کرنا بھی ضروری ہے، کیونکہ اس التزام کا نتیجہ یہ ہے مقتدی حضرات امام کی دعا کا انتظار کرتے رہتے ہیں، کوئی مقتدی امام کی دعا سے پہلے اپنی دعا نہیں کر سکتا، ورنہ لوگ اس پر طعن کرتے ہیں اور اس کے اس عمل کو معیوب سمجھتے ہیں، حالانکہ اوپر لکھا جا چکا ہے کہ اس دعا میں اجتماع اصل مقصود نہیں، بلکہ وہ ایک ضمنی چیز ہے۔
واضح رہے کہ جتنی دیر چاہے امام دعا کرے اور جتنی دیر چاہے مقتدی دعا مانگے، دونوں ایک دوسرے کے تابع نہیں ہیں، مقتدی کو اختیار ہے کہ اپنی مختصر دعا مانگ کر چلا جائے یا چاہے تو امام کے ساتھ دعا ختم کرے یا چاہے تو امام کی دعا سے زیادہ دیر تک دعا کرتا رہے، ہر طرح جائز ہے اور ہر طرح کے فرائض کے بعد یہ سنت مستحبہ ادا ہو جاتی ہے، خلاصہ یہ کہ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا اگر چہ مستقل سنت نہیں ہے، لیکن اسے بدعت بھی نہیں کہا جاسکتا، کیونکہ اس کی اصل ثابت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

السنن الكبري للنسائي: (رقم الحديث: 9856)
أخبرنا محمد بن يحيى بن أيوب قال: حدثنا حفص بن غياث قال: حدثنا ابن جريج، عن ابن سابط، عن أبي أمامة قال: قلت: يا رسول الله، أي الدعاء أسمع؟ قال: «جوف الليل الآخر، ودبر الصلوات المكتوبات»

سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 385)
عن الفضل بن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الصلاة مثنى مثنى، تشهد في كل ركعتين، وتخشع، وتضرع، وتمسكن، وتقنع يديك، [ص:226] يقول: ترفعهما إلى ربك، مستقبلا ببطونهما وجهك، وتقول: يا رب يا رب، ومن لم يفعل ذلك فهو كذا وكذا۔

سنن ابی داؤد: (باب من رفع یدیه فی الدعاء و مسح بھما وجھه، رقم الحدیث: 152)
عن معاذ بن جبل، أن رسول صلى عليه وسلم أخذ بيده، وقال: «يا معاذ، والله إني لأحبك، والله إني لأحبك»، فقال: " أوصيك يا معاذ لا تدعن في دبر كل صلاة تقول: اللهم أعني على ذكرك، وشكرك، وحسن عبادتك "، وأوصى بذلك معاذ الصنابحي، وأوصى به الصنابحي أبا عبد الرحمن.

صحیح مسلم: (باب فضل مجالس الذکر، رقم الحدیث: 2689)
حدثنا محمد بن حاتم بن ميمون، حدثنا بهز، حدثنا وهيب، حدثنا سهيل، عن أبيه، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إن لله تبارك وتعالى ملائكة سيارة، فضلا يتتبعون مجالس الذكر، فإذا وجدوا مجلسا فيه ذكر قعدوا معهم، وحف بعضهم بعضا بأجنحتهم، حتى يملئوا ما بينهم وبين السماء الدنيا، فإذا تفرقوا عرجوا وصعدوا إلى السماء، قال: فيسألهم الله عز وجل، وهو أعلم بهم: من أين جئتم؟ فيقولون: جئنا من عند عباد لك في الأرض، يسبحونك ويكبرونك ويهللونك ويحمدونك ويسألونك، قال: وماذا يسألوني؟ قالوا: يسألونك جنتك، قال: وهل رأوا جنتي؟ قالوا: لا، أي رب قال: فكيف لو رأوا جنتي؟ قالوا: ويستجيرونك، قال: ومم يستجيرونني؟ قالوا: من نارك يا رب، قال: وهل رأوا ناري؟ قالوا: لا، قال: فكيف لو رأوا ناري؟ قالوا: ويستغفرونك، قال: فيقول: قد غفرت لهم فأعطيتهم ما سألوا، وأجرتهم مما استجاروا، قال: فيقولون: رب فيهم فلان عبد خطاء، إنما مر فجلس معهم، قال: فيقول: وله غفرت هم القوم لا يشقى بهم جليسهم.

المعجم الکبیر للطبرانی: (رقم الحدیث: 14907)
حدثنا سليمانُ بن الحسنِ العطّارُ، قال: دثنا أبو كاملٍ الجحدريُّ ، قال: دثنا الفضَيلُ بن سليمانَ، قال: دثنا محمد بن أبي يحيى، قال: رأيتُ عبدَالله بن الزُّبيرِ ورأى رجلاً رافعًا يديه يدعو قبل أن يَفْرُغَ من صلاتِهِ، فلما فَرَغَ منها قال: إنَّ رسولَ الله صلى الله عليه وسلم لم يكنْ يرفعُ يديه حتى يَفرُغَ من صلاتِهِ.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 2002 Feb 15, 2021
faraiz kay baad ijtimai dua ka suboot ir darja, Evidence and status of congregational prayer after obligatory prayers

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Salath (Prayer)

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.