resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: "جو گناہ کر کے استغفار کرے، تو وہ گناہ پر اصرار کرنے والا نہیں ہے" اس حدیث کی تحقیق(6851-No)

سوال: مفتی صاحب! اس روایت کی تصدیق فرمادیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو استغفار کرتا رہا، اس نے گناہ پر اصرار نہیں کیا، اگرچہ وہ دن بھر میں ستر بار اس گناہ کو دہرائے۔ (ابو داؤد، حدیث نمبر 1514)

جواب:
سوال میں مذکور حدیث "سنن ابی داود " میں مذکور ہے، یہ حدیث"حسن"ہے، ذیل میں اس حدیث کا ترجمہ، حدیث کى اسنادى حیثیت اور حدیث کا مفہوم ذکر کیا جاتا ہے:
ترجمہ:حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جو استغفار کرتا رہا، اس نے گناہ پر اصرار نہیں کیا، اگرچہ وہ دن میں ستر مرتبہ بھی اس گناہ کا مرتکب ہوا ہو"۔(سنن ابی داود: حدیث نمبر: 1509) (1)
حدیث کى اسنادى حیثیت:
اس حدیث کو حافظ منذری رحمہ اللہ (م 656 ھ) نے "مختصر سنن ابی داود" 1/ 438، میں نقل کر کے فرمایا ہے: "اس حدیث کى امام ترمذی رحمہ اللہ نے تخریج فرمائى ہے، انہوں نے اس حدیث پر تبصرہ فرمایا ہے کہ یہ حدیث "غریب" (محدثین کے نزدیک حدیث کى ایک قسم ہے)، ہمیں یہ حدیث "ابو نصیرۃ" کے طریق سے ہى یہ حدیث معلوم ہے اور ان کى سند کى مضبوط نہیں ہے، امام ترمذى رحمہ اللہ کا کلام مکمل ہو گیا"۔
حافظ جمال الدین الزیلعی ر حمہ اللہ (م 762 ھ) نے اس حدیث کو "تخریج احادیث الکشاف" 1/ 227 ، میں اس حدیث کو نقل فرما کر ، اس حدیث کى تخریج کرنے والے ائمہ حدیث کا ذکر فرمایا ہے کہ اس حدیث کو امام ابوداود، امام ترمذی، امام ابویعلى موصلى، حافظ ابن سنی، امام بزار رحمہم اللہ نے اس حدیث کو اپنى کتب حدیث میں نقل فرمایا ہے، پھر انہوں نے امام ترمذى رحمہ اللہ کا کلام نقل فرمایا ہے، اس کے بعد انہوں نے اس حدیث کے جن راویوں کى وجہ سے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا گیا ہے، ان کے متعلق ائمہ حدیث کے اقوال نقل فرمائے ہیں، کہ اس حدیث کے راوی "عثمان بن واقد " ہیں، ان کو امام احمداور ابن معین رحمہما اللہ نے ثقہ قرار دیا ہے، "عثمان" کے شیخ "ابو نصیرۃ" ہیں، ان کانام مسلم بن عبید الواسطی ہے، ان کو امام احمد اور حافظ ابن حبان رحمہما اللہ نے ثقہ قرار دیا ہے اور اس حدیث کے راوی جو "مولى ابی بکر" ہیں، ان کا نام ابو رجاء ہے اور اس حدیث کے باقى تمام راوى ثقہ اور مشہور ہیں، باقى رہا امام ترمذى رحمہ اللہ کا یہ کہناکہ " ابونصیرۃ" کى سند قوى نہیں ہے،بظاہر انہوں نے "مولى ابی بکر "کےمجہول ہونے کى وجہ سے یہ بات فرمائى ہے، لیکن ان کے مجہول ہونے سے کوئى فرق نہیں پڑتا ہے، کیونکہ وہ بڑے تابعى ہیں اور ان کى تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سےنسبت ہى کافى ہے، لہذا یہ حدیث "حسن" ہے، واللہ اعلم۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (م 774 ھ) نے "تفسیر ابن کثیر" 3/ 197، میں اس حدیث کو نقل فرما کر حافظ زیلعى کے کلام ہى کو نقل فرمایا ہےاور آخر میں یہ تبصرہ فرمایا ہے:یہ "حدیث حسن "ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (م 852 ھ) نے "فتح البارى"1/ 112، میں امام ترمذى رحمہ اللہ کے حوالے سے اس حدیث کو نقل فرماکر یہ تبصرہ فرمایا ہے: اس حدیث کى سند"حسن" ہے۔
خلاصہ یہ کہ اس حدیث کو مذکورہ بالا جلیل القدر نقاد محدثین رحمہم اللہ کے متفقہ طور پر "حسن" قرار دیا ہے۔ (2)
حدیث کا مفہوم:
اس حدیث کی شرح میں علماء کرام نے فرمایا ہے کہ اس حدیث میں ستر کا عدد کثرت کو بیان کرنے کے لیے ہے، نیز گناہ کرنے کے بعد استغفار کا مطلب یہ نہیں ہے کہ "أستغفر اللہ" کہہ دے اور پھر گناہ میں ملوث ہو جائے، بلکہ استغفار سے مراد یہ ہے کہ اپنے کیے ہوئے گناہ پر سچے دل سے ندامت کے ساتھ استغفار کرے اور آئندہ نہ کرنے کا عزم بھی کرے۔
(ماخوذ ازبذل المجہود شرح سنن أبی داود: 6/ 249، طبع: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي) (3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

(1) سنن أبي داود : (كتاب الصلاة/ تفريع أبواب الوتر/ باب في الإستغفار، 2/ 380، رقم الحدي (1509)، ط: دار المنهاج)
حدثنا النفيلي، نا مخلد بن يزيد، نا عثمان بن واقد العمري، عن أبي نصيرة، عن مولى لأبي بكر الصديق، عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ما أصر من استغفر، وإن عاد في اليوم سبعين مرة".

(2) والحديث ذكره المنذري في "مختصر سنن أبي داود " 1/ 438، رقم الحديث (1458)، وقال: وأخرجه الترمذي (3559). وقال: هذا حديث غريب، إنما نعرفه من حديث أبي نُصَيرة، وليس إسناده بالقوي. هذا آخر كلامه.
وأورده الزيلعي في "تخريج أحاديث الكشاف "1/ 227 ، سورة آل عمران/ الحديث الثامن والأربعون، ط: دار ابن خزيمة، معزوا لأبي داود والترمذي، وأبي يعلى، وابن سني، والبزار، وذكر كلام الترمذي، والبزار، وقال: قلت عثمان بن واقد ،وثقه أحمد وابن معين .وشيخه أبو نصيرة ،اسمه مسلم ابن عبيد الواسطي ،وثقه أحمد وابن حبان .ومولى أبي بكر هو أبو رجاء ،وباقي رجاله ثقات مشهورون ،وقول الترمذي :ليس إسناده بالقوي ،الظاهر أنه لأجل جهالة مولى أبي بكر ،ولكن جهالة مثله لا تضر لأنه تابعي كبير ،وتكفيه نسبته إلى أبي بكر الصديق ،فالحديث حسن ،والله أعلم.
وذكره ابن كثير في "التفسير " 3/ 197، ط: مؤسسة قرطبة، وقال: ورواه أبو داود ،والترمذي ،والبزار في مسنده ،من حديث عثمان بن واقد - وقد وثقه يحيى بن معين به - وشيخه أبو نصر الواسطي ،واسمه سالم بن عبيد ،وثقه الإمام أحمد ،وابن حبان ،وقول علي بن المديني والترمذي : ليس إسناد هذا الحديث بذاك. فالظاهر أنه لأجل جهالة مولى أبي بكر ،ولكن جهالة مثله لا تضر ،لأنه تابعي كبير ،ويكفيه نسبته إلى أبي بكر ،فهو حديث حسن والله أعلم .
والحديث ذكره الحافظ في "الفتح"1/ 112، وعزاه إلى الترمذي، وقال: إسناده حسن.

(3) بذل المجهود: (6/ 249، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي)
"أي من أتبع ذنبه بالاستغفارفليس بمصر عليه، وإن تكرر منه، والظاهر أن المراد بسبعين التكثير والتكرير، وليس المراد بالاستغفار التلفظ بقوله: استغفرالله ، بال المراد : الندامة على فعل المعصية، والعزم على عدم العود".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

jo gunah kar kar istighfaar karay to wo gunah par israr karne wala nahi hai is hadees ki tehqeeq "جو استغفار کرتا رہا، اس نے گناہ پر اصرار نہیں کیا" حدیث کی تحقیق اور وضاحت, Confirmation of Hadith, Hadees, Narration regarding / related to "Whoever commits a sin and asks for forgiveness, then he is not one who insists on sin".

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees