سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! اگر وتر کے آخری تشہد میں شک ہوجائے کہ دعا قنوت پڑھی ہے یا نہیں، تو ایسی صورت میں سجدہ سہو کرنا درست ہے؟
جواب: وتر کی نماز کے قعدہ اخیرہ میں اگر صرف وہم اور شک ہو جائے کہ دعائے قنوت پڑھی ہے یا نہیں، تو ایسی صورت میں سجدہ سہو کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اگر غالب گمان یہی ہو کہ دعائے قنوت نہیں پڑھی، تو ایسی صورت میں سجدہ سہو کرنا لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (کتاب المساجد، باب السھو في الصلاۃ و السجود له، 383/3)
قولہ علیه السلام: ’’ إذا زاد الرجل أو نقص فلیسجد سجدتین‘‘۔
اعلاء السنن: (کتاب الصلاۃ، باب في بقیة أحکام السھو، 185/7)
"والضابط في ذلک أن سبب وجوبہ ترک الواجب الأصلي في الصلوٰۃ ، أو تغییرہ ، أو تغییر فرض منہا عن محلہ الأصلي ساہیاً ، لأن کل ذلک یوجب نقصانا في الصلاۃ".
حاشیة الطحطاوي علی مراقي الفلاح: (کتاب الصلاۃ، باب سجود السھو، ص: 250)
"أو تذکر القنوت في الرکوع فإنہ لا یعود ولا یقنت فیہ لفوات محلہ ۔۔۔۔۔ ویسجد للسہو علی کل حال لترک الواجب أو تأخیرہ".
الدر المختار: (92/2- 94)
"(واذاشک) فی صلاتہ (من لم یکن ذلک) ای الشک (عادۃ لہ) وقیل من لم یشک فی صلاۃ قط بعد بلوغہ وعلیہ اکثر المشائخ بحر عن الخلاصۃ (کم صلی استأنف) بعمل مناف و بالسلام قاعدا اولی لانہ المحل (وان کثر) شکہ (عمل بغالب ظنہ ان کان) لہ ظن للحرج ".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی