سوال:
ملکی قوانین کے تحت ایک ملازم اگر کام پر دیر سے آئے تو اسکی لیٹ لگ جاتی ہے، مثلاً 9 بجے اگر کمپنی میں آنے کا ٹائم ہے اور کوئی ملازم 9:15 کے بعد آئے تو اسکی لیٹ لگ جاتی ہے، مہینے میں تین لیٹ پر ایک چھٹی کاٹ لی جاتی ہے، اگر کوئی کمپنی اس پالیسی پر چلے تو یہ ملازمین کے ساتھ نا انصافی کے زمرہ میں تو نہیں آیے گا۔؟
جواب: مذکورہ ملازم شریعت کی اصطلاح میں "اجیرخاص" کہلاتا ہے، یعنی کہ یہ ملازم "وقت "کا ملازم ہے اور اس کو تنخواہ اس کے عمل کی نہیں، بلکہ اس کے وقت کی دیجاتی ہے۔
زیر نظر مسئلہ میں حکومت کو چاہیے کہ اس کی تنخواہ اتنے ہی منٹ کی کاٹے، جتنے منٹ وہ غیر حاضر رہا ہے، باقی جتنے منٹ اس نے کام کیا ہے، اتنے منٹ کی تنخواہ کا وہ حقدار ہے۔
واضح رہے کہ ملازم کے اوقات کو کنٹرول کرنے کے لئے اور اس کو وقت پر حاضر کرنے کے لئے کچھ اور مناسب اقدامات اختیار کرنے چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (69/6، ط: دار الفکر)
(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل۔۔۔۔وليس للخاص أن يعمل لغيره ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل فتاوى النوازل
الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ: (289/1، ط: دار السلاسل)
الأجير الخاص: هو من يعمل لمعين عملا مؤقتا، ويكون عقده لمدة. ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة؛ لأن منافعه صارت مستحقة لمن استأجره في مدة العقد۔۔۔۔ويجب على الأجير الخاص أن يقوم بالعمل في الوقت المحدد له أو المتعارف عليه. ولا يمنع هذا من أدائه المفروض عليه من صلاة وصوم، بدون إذن المستأجر. وقيل: إن له أن يؤدي السنة أيضا، وأنه لا يمنع من صلاة الجمعة والعيدين، دون أن ينقص المستأجر من أجره شيئا إن كان المسجد قريبا ولا يستغرق ذلك وقتا كبيرا
الھندیۃ: (167/2، ط: دار الفکر)
يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال وعندهما وباقي الأئمة الثلاثة لا يجوز كذا في فتح القدير. ومعنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنده مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي كذا في البحر الرائق.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی