سوال:
جو شخص شہرت کے لیے کپڑے پہنے گا، اللہ اس کو قیامت کے دن رسوائی کے کپڑے پہنائے گا اور اس میں آگ بھڑکائے گا۔ (ابن ماجہ) مندرجہ بالا حدیث کی تصدیق فرمادیں۔
جواب: سوال میں مذکور حدیث متعدد مستند کتبِ حدیث میں صحیح سند سے مذکور ہے، ذیل میں سنن ابن ماجہ کی روایت کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص دنیا میں نمائش اور شہرت کا لباس پہنے گا، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ذلت ورسوائی کا لباس پہنائے گا، پھر اس میں آگ بھڑکا دے گا۔ ("ثوب شھرة" سے کونسا لباس مراد ہے؟ اس حوالہ سے علماء کرام سے چار قسم کے اقوال منقول ہیں:
١- اس سے مراد ایسا لباس جسے فخر و تکبر اور اپنی بڑائی جتلانے کے لیے پہنا جائے۔
٢- ایسا لباس جو شرعا اس شخص کے لیے پہننا حرام ہو، مثلا مرد کے لیے ریشم پہننا۔
٣-ایسا لباس جو محض تمسخر اور لوگوں کو ہنسانے کے لیے اختیار کیا جائے۔
٤- بعض شارحین کی رائے یہ ہے کہ "شہرت کے لباس" سے مراد "جسمانی لباس" نہیں ،بلکہ لفظ "لباس"یہاں پر "انسانی اعمال "سے کنایہ ہے، یعنی جو لوگ دکھاوے کی غرض سے نیک اعمال کرتے ہیں، تو وہ گویا شہرت کا لباس پہنے ہوئے ہیں۔
ملا علی قاری، علامہ طیبی ودیگر عام شارحین رحمہم اللہ نے پہلے قول کو راجح قرار دیا ہے۔(مرقاة المفاتیح، کتاب اللباس، 2782/7،دار الفکر)
سابقہ گفتگوسے پیدا ہونے والے ايک اشکال اور اس کا جواب:
مذکورہ بالا حدیث میں تو "شہرت کا لباس" پہننے سے ممانعت فرمائی گئی ہے، جبکہ سنن الترمذی ميں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : "إن الله يحب أن يرى أثر نعمته على عبده". (بے شك الله تعالى يہ پسند کرتا ہے کہ وہ اپنی نعمتوں کا اثر اپنے بندے پر دیکھے). (سنن الترمذي: 4/ 421، (رقم الحدیث:2819)
اس حدیث سے تو اچھے اور عمدہ کپڑے پہننے کی اجازت معلوم ہوتی ہے، چنانچہ ان دونوں احادیث پر کس طرح عمل ممکن ہے؟
سو اس حوالہ سے واضح رہنا چاہیے کہ انسان کا تنگ دل وبخیل ہونااور( باوجود وسعت )میلا کچیلا لباس پہنے رکھنا شرعا مذموم ہے، تو دوسری جانب تکبر، نام ونمود کی خواہش اور دوسروں کو حقیر وکم تر سمجھنے کا ایک ناسور مرض، یہ بھی ایک انتہائی نا پسندیدہ عمل ہے، چنانچہ جس حدیث میں نعمت کا اثر بندوں پر ظاہر ہونے کی ترغیب دی گئی ہے اس ارشاد سے درحقیقت انسان کو بخیل بننے اور میلا کچیلا رہنے سے منع فرمایا گیا ہے، اور جس حدیث میں "شہرت کا لباس" اختیار کرنے کی ممانعت وارد ہے تو اس کا مقصد یہ ہے جب انسان کوئی اچھا لباس پہنے تو دل میں بڑائی آنے نہ دے، اس لباس کو نمائش کی نیت سے نہ پہنے، بلکہ خدا تعالى کا شکر بجا لائے۔
یہ بات بھی ذہن نشین کرنی چاہیے کہ لباس پہننے کا مقصد کیا ہے، اس کا تعلق انسان کی نیت سے ہے ، اس کی نیت پر فیصلہ ہوگا کہ اس شخص نے وہ لباس شہرت کی غرض سے پہنا ہے، یا ستر پوشی کے لیے۔ اور نیت کا تعلق دل سے ہے اور دلوں کا حال الله تعالی ہی بخوبی جانتے ہیں، لہذا کسی عمدہ لباس زیب تن شخص کو دیکھ کر حدیث شریف میں وارد وعیدات کا مصداق قرار دینا یہ ایک انتہائی نا مناسب حرکت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن ابن ماجه: (کتاب اللباس، باب من لبس شهرة من الثیاب، رقم الحدیث: 3607، 1192/2، ط: دار إحياء الكتب العربية)
عن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من لبس ثوب شهرة في الدنيا، ألبسه الله ثوب مذلة يوم القيامة، ثم ألهب فيه نارا»
مسند أحمد: (حدیث محمود بن لبید، رقم الحدیث: 23630، 39/39، الناشر: مؤسسة الرسالة)
عن محمود بن لبيد، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن أخوف ما أخاف عليكم الشرك الأصغر "، قالوا: وما الشرك الأصغر، يا رسول الله؟ قال: " الرياء، يقول الله عز وجل لهم يوم القيامة: إذا جزي الناس بأعمالهم: اذهبوا إلى الذين كنتم تراءون في الدنيا، فانظروا هل تجدون عندهم جزاء "۔
شرح المشکاة: (کتاب اللباس، رقم الحدیث: 4346، 2901/9، ط: مکتبة نزار مصطفی الباز مكة المكرمة، الرياض)
والمراد ب"ثوب شهرة": ما لا يحل لبسه، وإلا لما رتب الوعيد عليه، أو مايقصد بلبسه التفاخر والتكبر على الفقراء والإذلال بهم وكسر قلوبهم، أو ما يتخذه المساخر ليجعل به نفسه ضحكة بين الناس، أو ما يرائي به من الأعمال، فكني بالثوب عن العمل، وهو شائع۔
حجة الله البالغة: (کتاب اللباس والزینة، 294/2، ط: دار الجيل، بيروت)
هنالك شيئين مختلفين في الحقيقة، قد يشتبهان بادئ الرأي: أحدهما مطلوب، والآخر مذموم، فالمطلوب: ترك الشح، ويختلف باختلاف طبقات الناس، فالذي هو في الملوك شح، ربما يكون إسرافا في حق الفقير، وترك عادات البدو واللاحقين بالبهائم، واختيار النظافة ومحاسن العادات۔ والمذموم: الإمعان في التكلف والمراءاة، والتفاخر بالثياب وكسر قلوب الفقراء ونحو ذلك".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی