عنوان: طلاق کے بعد بچوں کی پرورش کا حق کس کو حاصل ہے؟(6910-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب ! ایک عورت کے شوہر نے اسے دو دفعہ طلاق دیدی تھی اور پھر حالات بہتر نہ ہونے کی صورت میں اس خاتون نے خلع کا کیس دائر کردیا، لیکن اس خاتون کے جیٹھ نے کہا کہ اس کا بھائی تیسری طلاق دینے کے لئے تیار ہے۔
اس خاتون کے تین بچے ہیں، طلاق کے پیپر میں اس کے گھر والوں نے دو بڑے بچے اپنے پاس مستقل رکھنے اور چھوٹا بچہ ماں کو دینے کا لکھ وادیا، بچوں کی عمریں اس وقت بڑا بیٹا 15 سال کا ہے، بیٹی 10 کی ہے اور چھوٹا بیٹا 5 سال کا ہے۔
جس پر اس خاتون نے احتجاج کیا، مگر اس خاتون کے بڑے جیٹھ نے یہ کہا کہ دو ماہ بعد بچی بھیج دیں گے۔
مزید یہ کہ مہر کے پیسے بھی نہیں دیے، وہ بھی دینے کا کہا تھا، مگر اس طلاق کو 4 سال ہو گئے، نہ بچے دیے، اور نہ مہر کے پیسے، یہاں تک کے بچوں کی شکل تو دور کی بات، آواز تک سننے نہیں دی، وہ خاتون بچوں کے لئے تڑپ رہی ہے۔

وہ کینٹ چھاؤنی میں رہتے ہیں، وہ خاتون جا نہیں سکتی، کیونکہ وہاں nic کے بغیر انٹری نہیں ہو سکتی، اور nic بھی ان لوگوں نے رکھ لیا۔

ساری صورت حال کے بعد معلوم یہ کرنا ہے کہ بچوں کے معاملے میں ماں کے لئے کیا حکم ہے؟

جواب: طلاق کی وجہ سے اگر میاں بیوی دونوں کے درمیان علیحدگی ہو جائے، تو ماں لڑکے کو سات برس اور لڑکی کو نو برس تک اپنے پاس رکھ سکتی ہے، بشرطیکہ وہ کسی ایسے آدمی سے جو بچوں کا غیر محرم ہو، شادی نہ کرلے، اور ماں کی اخلاقی حالت بھی خراب نہ ہو۔
صورت مسئولہ میں بڑا لڑکا جو پندرہ سال کا ہے، اور لڑکی جو دس سال کی ہے، ان دونوں کی پرورش کا حق باپ کو ہے، اور چھوٹا بیٹا جو پانچ سال کا ہے، اسے سات سال کی عمر تک ماں کے پاس رہنے کا حق حاصل ہے۔

شوہر کا ماں کو بچوں سے ملاقات نہ کرنے دینا ظلم ہے، مذکورہ عورت کا اپنے بچوں سے ملاقات کی غرض سے سابقہ شوہر کے گھر جانا جائز ہے، بشرطیکہ مطلقہ بیوی کی طرف سے مکمل پردہ کا اہتمام ہو، کیونکہ اب وہ اس کے نکاح میں نہیں رہی ہے، اور اس کے لئے اجنبیہ بن چکی ہے، نیز مہر کی رقم واپس کرنا شوہر پر لازم ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (النور، الآیۃ: 30)
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْؕ-ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنََّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ۔۔۔۔الخ

و قولہ تعالی: (النساء، الآیۃ: 04)
وَآتُوْا النِّسَآئَ صَدُقَاتِہِنَّ نِحْلَۃً، فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْئٍ مِنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ہَنِیْئًا مَرِیْئًاo

سنن ابی داود: (کتاب الطلاق، باب من أحق بالولد، 317/1، ط: حقانیة)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ السُّلَمِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي عَمْرٍو يَعْنِي الْأَوْزَاعِيَّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ ابْنِي هَذَا كَانَ بَطْنِي لَهُ وِعَاءً وَثَدْيِي لَهُ سِقَاءً وَحِجْرِي لَهُ حِوَاءً، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ أَبَاهُ طَلَّقَنِي وَأَرَادَ أَنْ يَنْتَزِعَهُ مِنِّي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَنْتِ أَحَقُّ بِهِ مَا لَمْ تَنْكِحِي .

مؤطا الإمام مالک: (النکاح، باب إرخاء الستور، ص: 342)
عن سعید بن المسیب أن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ قضی في المرأۃ إذا تزوجہا الرجل أنہ إذا أرخیت الستور فقد وجب الصداق۔

الدرالمختار: (102/3)
باب المھر:( وتجب ) العشرة ( إن سماها أو دونهاو ) يجب ( الأكثر منها إن سمى ) الأكثر ويتأكد ( عند وطء أو خلوة صحت ) من الزوج ( أو موت أحدهما )۔

رد المحتار: (104/3، ط: دار احیاء التراث العربي)
اذا طلقھا الزوج بعد الخلوۃ الصحیحۃ لوجوب المھر کاملاً علی الزوج

الدر المختار: (215/5 -216، ط: دار احیاء التراث العربي)
والحاضنُ أماً أو غیرہ أحق بہ أي: بالغلام، حتی یستغني عن النساء، وقدر بسبع وبہ یفتی؛ لأنہ الغالب۔۔۔۔۔ والأم والجدة۔۔ أحق بھا، أي: الصغیرة حتی تحیض۔۔۔۔۔۔ وغیرہما أحق بھا حتی تشتھي و قدر بتسع، و بہ یفتی۔۔۔۔ الخ۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 958 Feb 24, 2021
talaaq kay baad bacho ki parwarish ka haq kisko haasil hoga?, Who has the right to raise / bring up children after divorce?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.