سوال:
حضرت حسن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کے حوالے سے یہ حدیث بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے آدم کے بیٹے! تو اپنا خزانہ میرے پاس جمع کرکے مطمئن ہو جا، نہ آگ لگنے کا خطرہ، نہ پانی میں ڈوبنے کا اندیشہ اور نہ چوری کا ڈر، میرے پاس رکھا گیا یہ خزانہ، میں پورا تجھے دوں گا، اس دن جب تو اس کا سب سے زیادہ محتاج ہوگا۔ (ترغیب بحوالۂ طبرانی) مفتی صاحب ! اس حدیث کی تصدیق فرمادیں۔
جواب: سوال میں ذکرکردہ روایت حضرت حسن بصریؒ (م 110ھ ) سے مرسلاًمروی ہے اور ان سے مرسل ہونے کی صراحت کے ساتھ بیان کرنا درست ہے۔اس روایت کا ترجمہ ،تخریج اور اسنادی حیثیت مندرجہ ذیل ہے:
ترجمہ:حضرت حسن بصری سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب کے حوالے سے یہ حدیث بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے آدم کے بیٹے! تو اپنا خزانہ میرے پاس امانت رکھوا(کرمطمئن ہو جا)‘ نہ آگ لگنے کا خطرہ‘ نہ پانی میں ڈوبنے کا اندیشہ اور نہ چوری کا ڈر۔ میرے پاس رکھا گیا یہ خزانہ، میں پورا تجھے دوں گا ، اس دن جب تو اس کا سب سے زیادہ محتاج ہوگا۔(شعب الإیمان للبیھقی،حدیث نمبر: 3342،ط: دارالكتب العلمية)
تخریج الحدیث:
۱۔امام بیھقی (م 458ھ)نے ’’شعب الإیمان‘‘(3/211)،رقم الحديث: 3342،ط: دارالكتب العلمية) میں ذکر کیا ہے۔
۲۔علامہ منذری (م 656)نے ’’الترغیب و الترھیب‘‘ ( 2/10) رقم الحدیث: 1292، ط: دار الکتب العلمیة)میں امام طبرانی (م 360ھ)اور امام بیھقی(م 458ھ) کے حوالے سے ایک لفظ کے فرق کے ساتھ نقل کیا ہے۔
مذکورہ روایت کی اسنادی حیثیت:
مذکورہ بالا روایت حضرت حسن بصریؒ (م 110ھ) کی مرسل روایت ہے اور محدثین کی اصطلاح میں مرسل حدیث اسے کہتے ہیں، جس میں صحابیؓ کا نام چھوڑ دیا جائے، جیسا کہ کوئی تابعی کہے، قال رسول اللہ ﷺ(رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔)(2)
مرسل روایات کا حکم
مرسل روایات کے بارے میں علمائے احناف کثراللہ سوادھم کا مسلک یہ ہے کہ قرون ِ ثلاثہ(صحابہ کرام ،تابعین کرام اور تبع تابعین کرام رحمہم اللہ )کے مراسیل مطلقا ًقابل ِ قبول ہیں۔(3)
حضرت حسن بصری (م 110ھ) کی مراسیل کا حکم
حضرت حسن بصری (م 110ھ) علم و علمل کے اعتبارسے اپنے زمانے کے سربرآودردہ شخصیت تھے،انھوں نے صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد سے علم حاصل کیا ۔(4)حسن بصریؒ (م 110ھ) مرسل روایت بیان کرتے ہیں ان کے مراسیل کے بارے میں محدثین کرام رحمہم اللہ کے مختلف اقوال ہیں۔
امام ابن المدینیؒ (م 234ھ)کہتے ہیں کہ حسن بصریؒ (م 110ھ) کی ثقہ روای سے مروی مراسیل ’’صحیح ‘‘ہیں ،البتہ ایسی روایات صحاح کے درجے سے کچھ کم ہوں گی ۔
امام ابوزرعہ(م302ھ) فرماتے ہیں کہ حسن بصریؒ (م 110ھ) جس روایت کو قال رسول اللہ ﷺ کہہ کر روایت کرتے ہیں، اس کی کوئی نہ کوئی اصل مجھے ضرور ملی ہے سوائے چار روایات کے،جو نہیں ملی ہیں ۔(5)
امام یحیی ٰ بن سعید القطان(م198 ھ)فرماتے ہیں کہ حسن بصریؒ (م 110ھ) نےجس روایت کو قال رسول اللہ ﷺ کہہ کر روایت کیا ہے ،ہمیں اس کی اصل ملی ہے ،البتہ ایک دو حدیثیں ایسی ہیں جو نہیں ملیں۔ (6)
امام ابوبكرالجصاص (م 370ھ)نے حضرت حسن بصریؒ (م 110ھ) کے حوالے سے لکھا کہ وہ فرماتے ہیں کہ جب مجھے کوئی حدیث چار صحابہ کرام سے مل جاتی ہے تو میں اس میں ارسال کرتاہوں۔ (7)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حضرت حسن بصریؒ (م 110ھ )کی مرسل روایات قابل قبول ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
(1)شعب الأیمان للبیھقی: (3/211)،رقم الحديث: 3342،ط: دارالكتب العلمية)
عن الحسن، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يروي ذلك عن ربه عز وجل أنه يقول: " يا ابن آدم، أودع من كنزك عندي لا حرق، ولا غرق، ولا سرق أوفيكه أحوج ما تكون إليه " هذا مرسل۔
أورده المنذري في ’’الترغیب و الترھیب‘‘ ( 2/10) (1292) وقال : رواه الطبراني والبيهقي وقال هذا مرسل وقد روينا عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال إن الله إذا استودع شيئا حفظه۔
(2)قواعد فی علوم الحدیث للعلامة ظفر العثمانی: (ص: 39، ط: ادارۃ القرآن و العلوم الاسلامیة)
والمرسل: ما حذف من آخر إسناده، وهو قول التابعي قال رسول الله صلى الله عليه وسلم كذا، أو فعل كذا. وقد يطلق الإرسال على الحذف مطلقا في أي موضع كان.
(3)تدریب الراوی: (3/147، ط: دار اليسر)
وقال ابن جرير: وأجمع التابعون بأسرهم على قبول المرسل، ولم يأت عنهم إنكاره، ولا عن أحد من الأئمة بعدهم إلى رأس المائتين.
قال العلامة ظفرأحمد العثماني رحمه الله في’’ قواعد فی علوم الحدیث‘‘(138۔139) بعد نقل كلام ابن الحنبلي من قبول المرسل مطلقاًمن القرون الثلاثة ’’قلت و بهذا علم أن كون الراوي يرسل عن الثقات و غيرهم جرح في مرسل من هو دون القرون الثلاثة ، أما أهل القرون الثلاثة فمرسلهم مقبول عند مطلقاً‘‘
(4) تهذيب التهذيب لابن حجر العسقلاني: (2/263۔264، ط: مطبعة دائرة المعارف النظامية)
ع الستة الحسن بن أبي الحسن يسار البصري أبو سعيد مولى الأنصار وأمه خير مولاة أم سلمة قال بن سعد ولد لسنتين بقيتا من خلافة عمر ونشأ بوادي القرى وكان فصيحا رأى عليا وطلحة وعائشة وكتب للربيع بن زياد والي خراسان في عهد معاوية روى عن أبي بن كعب وسعد بن عبادة وعمر بن الخطاب ولم يدركهم وعن ثوبان وعمار بن ياسر وأبي هريرة وعثمان بن أبي العاص ومعقل بن سنان ولم يسمع منهم وعن عثمان وعلي وأبي موسى وأبي بكرة وعمران بن حصين وجندب البجلي وابن عمر وابن عباس وابن عمرو بن العاص ومعاوية ومعقل بن يسار وأنس وجابر وخلق كثير من الصحابة والتابعين۔
(5)تهذيب التهذيب لابن حجر العسقلاني: (2/266، ط: مطبعة دائرة المعارف النظامية)
وقال بن المديني مرسلات الحسن إذا رواها عنه الثقات صحاح ما أقل ما يسقط منها۔وقال أبو زرعة كل شيء يقول الحسن قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وجدت له أصلا ثابتا ما خلا أربعة أحاديث۔
(6) تدريب الراوي :(3/164،ط:داراليسر)
وقال يحيى بن سعيد القطان ما قال الحسن في حديثه قال رسول الله صلى الله عليه و سلم إلا وجدنا له أصلا إلا حديثا أو حديثين
(7)الفصول في الأصول للجصاص:(3/149،ط: وزارة الأوقاف الكويتية)
وروي عن الحسن قال: كنت إذا اجتمع لي أربع نفر من أصحاب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - تركتهم، وأسندته إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی