سوال:
مفتی صاحب ! ایک قریبی رشتدار جوڑوں کے درد کی وجہ سے استنجاء صحیح سے نہیں کر پا رہے ہیں اور کپڑے پاک رکھنا مشکل ہے، اہلیہ کے علاوہ کوئی تیماردار بھی نہیں ہے اور اہلیہ خود بھی بیمار ہیں، اب یہ شخص نماز کیسے ادا کریں؟
جواب: اگر مریض خود استنجاء کرنے پر قادر نہ ہو، تو مریض کی اہلیہ کو چاہیے کہ وہ استنجاء کرا دیا کریں، اگر وہ نہ کراسکے، اور سترِ عورت کو دیکھے بغیر کسی دوسرے شخص کے لیے استنجاء کرانا ممکن ہو، مثلا: دوسرا شخص پانی ڈال کردے اور مریض خود سے استنجاء کرلے، تو ایسی صورت میں کوئی دوسرا شخص استنجاء کرادے، ورنہ مریض کیلیے از خود جتنا بھی ممکن ہو، استنجاء کر کے نماز پڑھ لیں، کوشش کے باوجود اگر پوری طرح پاکی حاصل نہ ہوپائے، تب بھی نماز نہ چھوڑے، بلکہ اسی حالت میں پڑھ لے ، امید ہے کہ انشاء اللہ نماز ادا ہوجائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (357/1، ط: دار الفكر)
(قوله: وكذا مريض إلخ) في الخلاصة مريض مجروح تحته ثياب نجسة، إن كان بحال لا يبسط تحته شيء إلا تنجس من ساعته له أن يصلي على حاله، وكذا لو لم يتنجس الثاني إلا أنه يزداد مرضه له أن يصلي فيه بحر من باب صلاة المريض.
والظاهر أن المراد بقوله " من ساعته " أن يتنجس نجاسة مانعة قبل الفراغ من الصلاة كما أشار إليه الشارح بقوله وكذا.
البحر الرائق: (124/2، ط: دار الکتاب الاسلامی)
وفي الولوالجية المريض إذا كان لا يمكنه الوضوء أو التيمم وله جارية فعليها أن توضئه لأنها مملوكة وطاعة المالك واجبة إذا عري عن المعصية وإذا كان له امرأة لا يجب عليها أن توضئه لأن هذا ليس من حقوق النكاح إلا إذا تبرعت فهو إعانة على البر۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی