سوال:
مفتی صاحب ! میں نے ایک عالم سے سنا تھا کہ اموال کی دو قسمیں ہیں، ایک ظاہرہ اور دوسری باطنہ، براہِ مہربانی ان دونوں اموال کی وضاحت فرمادیں اور یہ بھی بتادیں کہ حکومت ان میں سے کونسے مال سے زکوۃ وصول کرسکتی ہے؟
جواب: لوگوں کے پاس اموال دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک کو اموالِ ظاہرہ کہتے ہیں اور دوسرے کو اموالِ باطنہ کہتے ہیں، اموال ظاہرہ اس مال کو کہتے ہیں، جو ظاہر ہو اور جسے لوگ اگر چھپانا چاہیں، تو چھپا نہ سکتے ہوں، جیسے مالِ تجارت اور سائمہ جانور اونٹ، بکریاں وغیرہ۔
اور اموالِ باطنہ اسے کہتے ہیں، جو لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو کہ اگر اسے لوگ چھپانا چاہیں، تو چھپا سکتے ہوں، جیسے سونا، چاندی اور نقد رقم وغیرہ۔
اموالِ ظاہرہ کے بارے میں حکم یہ ہے کہ حکومت ان کی زکوۃ وصول کرسکتی ہے، جبکہ اموالِ باطنہ کی زکوۃ مالک خود ادا کرے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (35/2، ط: دار الکتب العلمیۃ)
مال الزكاة نوعان ظاهر وهو المواشي والمال الذي يمر به التاجر على العاشر، وباطن وهو الذهب والفضة وأموال التجارة في مواضعها أما الظاهر فللإمام ونوابه وهم المصدقون من السعاة والعشار ولاية الأخذ۔۔۔۔وأما المال الباطن الذي يكون في المصر فقد قال عامة مشايخنا: إن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - طالب بزكاته، وأبو بكر وعمر طالبا، وعثمان طالب زمانا ولما كثرت أموال الناس ورأى أن في تتبعها حرجا على الأمة وفي تفتيشها ضررا بأرباب الأموال فوض الأداء إلى أربابها.
الفقہ الاسلامی و ادلتہ: (1973/3، ط: دار الفکر)
فان کان مال الزکاۃ خفیا اوباطنا: وھو الذھب والفضۃ واموال التجارۃ فی مواضعھا، جاز للمالک ان یفرقھا بنفسہ او ان یدفعھا الی الامام لان رسول اﷲ ﷺ طالب بزکاتہ وتبعہ فی ذلک ابو بکر وعمر، ثم طالب بھا عثمان لمدۃ ولما کثرت اموال الناس ورای ان فی تتبعھا حرجا علی الامۃ فوض الاداء الی اربابھا… وان کان مال الزکاۃ ظاھرا وھو المواشی و الزروع والثمار والمال الذی یمربہ التاجر علی العاشر فیجب عند الجمھور منھم الحنفیۃ والمالکیۃ دفعھا الی الامام۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی