سوال:
السلام علیکم، اگر کسی کی بیوی نے اللہ کی ذات پر اعتراض کردیا ہو یا کوئی اور کفریہ کلمہ کہہ دیا ہو، تو تجدید نکاح کیلئے دوبارہ مہر رکھنا لازم ہے اور اگر لازم ہے تو مہر کم سے کم کتنا رکھ سکتے ہیں؟ اور یہ بھی ارشاد فرما دیں کہ اگر تجدید نکاح کے لیے صرف دوخواتین گواہ ہوں اور مرد نہ ہو تو کیا نکاح ہو جائے گا؟
جزاک اللہ خیرا
جواب: اگر واقعی کسی عورت نے کوئی کفریہ بات زبان سے نکال دی ہو تو ایسی عورت پر ایمان کی تجدید کرنا ضروری ہے، لہذا اس کو آخرت کی فکر دِلا کر توبہ و استغفار اور تجدیدِ ایمان کی تلقین کی جائے۔تاہم اس کا نکاح مفتیٰ بہ قول کے مطابق اپنے شوہر سے ختم نہیں ہوا، البتہ جب تک وہ اپنے اس کفریہ بات سے توبہ کرکے تجدید نکاح نہ کرلے، اس وقت تک شوہر کے لیے اس سے ازدواجی تعلقات (ہمبستری یا بوس و کنار کرنا) جائزنہیں ہوگا۔
تجدیدِ نکاح کا طریقہ یہ ہے کہ خطبہ نکاح پڑھنے کے بعد دو مسلمان عاقل بالغ مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ ایجاب و قبول کرلیا جائے،البتہ خطبہ پڑھنا سنت ہے، لہذا اگر خطبہ کے بغیر دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کے سامنے صرف ایجاب و قبول کر لیا جائے، تب بھی نکاح ہو جائے گا، البتہ اگر گواہ صرف عورتیں ہوں تو نکاح منعقد نہیں ہوگا۔
واضح رہے کہ مہر کی کم از کم مقدار دس درھم ہے، چاندی کے حساب سے اس کی مقدار تیس گرام چھ سو اٹھارہ ملی گرام (30.618) اور تولہ کے حساب سے 31.5 ماشہ چاندی بنتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مختصر القدوری: (145/1، ط: دار الکتب العلمیۃ)
النكاح ينعقد بالإيجاب والقبول بلفظين يعبر بهما عن الماضي أو يعبر بأحدهما عن الماضي وبالآخر عن المستقبل مثل أن يقول: زوجتي فيقول : زوجتك،
ولا يعقد نكاح المسلمين، إلا بحضور شاهدين حرين بالغين عاقلين مسلمين أو رجل وامرأتين۔
الفقہ الاسلامی و ادلتہ: (1618/9، ط: دار الفکر)
فإن عقد الزواج من غير خطبة جاز، فالخطبة مستحبة غير واجبة، لما روى سهل بن سعد الساعدي أن النبي صلى الله عليه وسلم قال للذي خطب الواهبة نفسها للنبي صلى الله عليه وسلم: «زوجتكها بما معك من القرآن» ولم يذكر خطبة
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی