سوال:
مفتی صاحب! شبِ معراج کا واقعہ کس تاریخ کو پیش آیا، نیز کیا ہر سال آنے والی شب معراج کی کوئی فضیلت یا مخصوص عبادت شریعت میں ثابت ہے؟
جواب: واضح رہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ کا " اسراء اورسفرِمعراج " برحق ہے اوراس واقعے کی تفصیل تقریباً پنتالیس صحابہ کرامؓ سے منقول ہے، اس لئے اس کے انکار کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اب یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں :( ۱) اس رات کی امت کےحق میں کیا فضیلت ہے؟(۲) یہ کونسی رات ہے؟
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ قرآن اور حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ ﷺ کا سفرِ معراج آپ ﷺ کا بہت بڑا اعزاز اور شرف تھا، لیکن امت کے حق میں اس بارے میں قرآن اور حدیث سے کسی قسم کی کوئی فضیلت ثابت نہیں ہے۔شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ سے پوچھا گیا کہ شبِ قدر اور شبِ معراج ان دونوں راتوں میں سے کون سی رات افضل ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ نبی اکرم ﷺ کے حق میں لیلة المعراج افضل ہے اور امت کے حق میں لیلة القدر ، اس لیے کہ اِس رات میں جن انعامات سے نبی اکرم ﷺ کو مختص کیا گیا، وہ ان (انعامات ) سے کہیں بڑھ کے ہیں جو (انعامات آپ ﷺ کو) شبِ قدر میں نصیب ہوئے،اور امت کو جو حصہ (انعامات)شبِ قدر میں نصیب ہوا، وہ اس سے کامل ہے جو(امت کو شبِ معراج میں ) حاصل ہوا ، اگرچہ امتیوں کے لیے شبِ معراج میں بھی بہت بڑا اعزاز ہے، لیکن اصل فضل اور شرف اُس ہستی کے لیے ہے جِس کو معراج کروائی گئی۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ آپ ﷺ کے سفرِ معراج کے سال،مہینے اور تاریخ کے بارے میں بھی بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے۔
معراج کے سال کےبارے میں عموماً دس اقوال ملتے ہیں:(۱)معراج ہجرت سے ایک سال قبل کروائی گئی۔(٢)معراج ہجرت سے آٹھ ماہ قبل ہوئی۔ (۳)ہجرت سے چھ ماہ قبل ہوئی۔(۴) ہجرت سے گیارہ ماہ قبل ہوئی۔(۵)ہجرت سے ایک سال اور دو ماہ قبل ہوئی۔(۶)ہجرت سے ایک سال اور تین ماہ قبل ہوئی ۔(۷)ہجرت سے ایک سال اور پانچ ماہ قبل ہوئی۔ (۸) ہجرت سے تین سال قبل ہوئی۔ (۹)واقعہ معراج ہجرت سے پانچ سال قبل پیش آیا۔ (۱۰) ایک قول بعثت سے پہلے وقوعِ معراج کا بھی ہے، لیکن یہ قول شاذ ہے، اس کو تسلیم نہیں کیا گیا۔
مشہور سیرت نگار سید فضل الرحمن صاحب لکھتے ہیں کہ معراج نبوی سن دس نبوی کے بعد سن گیارہ نبوی میں طائف کے سفر سے واپسی کے بعد کسی مہینے میں ہوئی۔
اسی طرح مہینے کی تعیین میں بھی اختلاف ہے کہ واقعہِ معراج کس مہینے میں پیش آیا، ربیع الاول ، ربیع الاخر، رجب، رمضان یا شوال ، یہ پانچ اقوال ملتے ہیں۔
اسی طرح شبِ معراج کس روز اور کس تاریخ میں ہوئی؟دن کے بارے میں جمعہ ، ہفتہ اور پیرکے تین اقوال مشہور ہیں (سُبُل الہدیٰ والرشاد: 65/3،دارالکتب العلمیہ )
تاریخ کے بارے میں سترہ ربیع الاول ،ستائیس ربیع الاول ، انتیس رمضان اور ستائیس ربیع الثانی کے اقوال ہیں ، علامہ ابن کثیر ؒ تمام اقوال ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ بعض احادیث میں جن کی سند صحیح نہیں ،یہ بھی وارد ہے کہ" اسرا" ستائیس رجب کو ہوئی۔
علماء ِسیر نے خوب تحقیق کے بعد اُن صحابہ کی تعداد اور نام لکھے ہیں ،جنہوں نے قصہ معراج کو مختصر اور کسی نے تفصیل سے نقل کیا ہے، چنانچہ علامہ زرقانی نے پینتالیس صحابہ کرام کے نام ذکر کئے ہیں،غرض یہ کہ کوئی قول کسی دلیل پر مبنی نہیں ہے، سب محض اندازے ہیں۔
اس ساری تفصیل کے بعد قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس قصے کی تفصیل بیان کرنے والے اصحاب ِ رسول کی اتنی بڑی تعداد ہے اور اس کے باوجود جس رات میں یہ واقعہ پیش آیا ، نہ تو کسی صحابی نے اس رات کو کسی مخصوص عبادت کے لیے متعین کیا اور نہ ہی زبانِ نبوت سے اس بارے میں کوئی ارشاد صادر ہوا ،اور نہ ہی اس رات کی اس طرح سے تعظیم کسی صحابیِ رسول کے ذہن میں پیدا ہوئی،حتی کہ اس رات کی حتمی تاریخ بھی کسی نے بھی نقل نہیں کی، آخر اس شب سے اس قدر بے توجہی کی وجہ کیا ہے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس رات یا دن سے متعلق کوئی حکم شرعی اور کسی قسم کی کوئی عبادت ثابت نہیں ہے، اس لئے نہ تو حضوراکرم ﷺ نے از خود اس کی طرف اشارہ کیا اور نہ ہی صحابہ کرامؓ میں سے کسی نے اس کے بارے میں سوال کرنے کی ضرورت سمجھی، بلکہ اس کی تعیین کو ایک طرح سے لغو قرار دے کر اس بارے میں خاموشی اختیار کی۔
مذکورہ تفصیل سے ثابت ہوا کہ اگر شب معراج بھی شبِ قدر کی طرح کوئی مخصوص عبادت کی رات ہوتی اور اس کے بارے میں بھی شب قدر کی طرح کوئی خاص احکام اور فضائل ثابت ہوتے تو شریعت میں اس کی تاریخ اور مہینہ کو بھی محفوظ رکھنے کا اہتمام ضرور کیا جاتا۔
چونکہ شب معراج کی تاریخ محفوظ نہیں ہے، لہذا یقینی طور سے ستائیس رجب کو شبِ معراج قرار دینا درست نہیں ہے اور اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ آپ ﷺ ستائیس رجب کو ہی معراج کے لیے تشریف لے گئے تھے تو یہ فضیلت صرف اسی رات کو حاصل ہوگی، جس میں یہ معراج کا واقعہ پیش آیا تھا، لہذا کسی مسلمان کو اس کی فضیلت میں کوئی شبہ بھی نہیں ہونا چاہیے، البتہ ہر سال ستائیس رجب کو عبادت کرنے کی قرآن و حدیث میں کوئی فضیلت ثابت نہیں ہے، لہذا ہر سال اس رات میں مخصوص عبادات اور دن میں روزے کا اہتمام و التزام کرنا یا اس کو دین کا حصہ اور سنت قرار دینا بدعت کے زمرے میں آئے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فتح الباري: (203/7، ط: دار المعرفة)
وقد اختلف في وقت المعراج فقيل كان قبل المبعث وهو شاذ إلا إن حمل على أنه وقع حينئذ في المنام كما تقدم وذهب الأكثر إلى أنه كان بعد المبعث ثم اختلفوا فقيل قبل الهجرة بسنة قاله بن سعد وغيره وبه جزم النووي وبالغ بن حزم فنقل الإجماع فيه وهو مردود فإن في ذلك اختلافا كثيرا يزيد على عشرة أقوال منها ما حكاه بن الجوزي أنه كان قبلها بثمانية أشهر وقيل بستة أشهر وحكى هذا الثاني أبو الربيع بن سالم وحكى بن حزم مقتضى الذي قبله لأنه قال كان في رجب سنة اثنتي عشرة من النبوة وقيل بأحد عشر شهرا جزم به إبراهيم الحربي حيث قال كان في ربيع الآخر قبل الهجرة بسنة ورجحه بن المنير في شرح السيرة لابن عبد البر وقيل قبل الهجرة بسنة وشهرين حكاه بن عبد البر وقيل قبلها بسنة وثلاثة أشهر حكاه بن فارس وقيل بسنة وخمسة أشهر قاله السدي وأخرجه من طريقه الطبري والبيهقي فعلى هذا كان في شوال أو في رمضان على إلغاء الكسرين منه ومن ربيع الأول وبه جزم الواقدي وعلى ظاهره ينطبق ما ذكره بن قتيبة وحكاه بن عبد البر أنه كان قبلها بثمانية عشر شهرا وعند بن سعد عن بن أبي سبرة أنه كان في رمضان قبل الهجرة بثمانية عشر شهرا وقيل كان في رجب حكاه بن عبد البر وجزم به النووي في الروضة وقيل قبل الهجرة بثلاث سنين حكاه بن الأثير وحكى عياض وتبعه القرطبي والنووي عن الزهري أنه كان قبل الهجرة بخمس سنين ورجحه عياض ومن تبعه۔
شرح الزرقاني على المواهب اللدنية: (70/2، ط: دار الكتب العلمية)
وقيل: الهجرة بسنة وخمسة أشهر، قاله السيدي وأخرجه من طريقه الطبري والبيهقي، فعلى هذا كان في شوال.
وقيل: كان في رجب. حكاه ابن عبد البر، وقبله ابن قتيبة، وبه جزم النووي في الروضة.
وقيل: كان قبل الهجرة بسنة وثلاثة أشهر، فعلى هذا يكون في ذي الحجة، وبه جزم ابن فارس.
وقيل: قبل الهجرة بثلاث سنين، ذكر ابن الأثير.وقال الحربي: إنه كان في سابع عشري ربيع الآخر، وكذا قال النووي في فتاويه، لكن قال في شرح مسلم: في ربيع الأول.
وقيل: كان ليلة السابع والعشرين من رجب، واختاره الحافظ عبد الغني بن سرور المقدسي
سبل الهدى و الرشاد: (65/3، ط: دار الکتب العلمیة)
وروى ابن أبي شيبة عن جابر وابن عباس رضي الله عنهما قالا: «ولد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الاثنين وفيه بعث وفيه عرج إلى السماء وفيه مات» . وقولهما: «وفيه عرج إلى السماء» أراد الليلة لأن الإسراء كان بالليل اتفاقا.
تنبيه: ذكر أبو الخطاب بن دحية إن الإسراء كان في الليلة التي بين الأحد والاثنين على القول بأن الليلة تتبع اليوم الذي قبلها. ثم قال: «ويدل على أن الليلة تتبع اليوم الذي قبلها أن ليلة عرفة هي التي قبلها بإجماع، وكان بعضهم يقول: ليلة السبت في ظن الناس هي ليلة الجمعة» قال ابن دحية: «ويمكن أن يعين اليوم الذي أسفرت عنه تلك الليلة، ويكون يوم الاثنين» . وذكر الدليل على ذلك بمقدمات حساب من تاريخ الهجرة، وحاصل الأمر أنه استنبطه، وحاول موافقة كون المولد يوم الاثنين وكون المبعث يوم الاثنين وكون المعراج يوم الاثنين وكون الهجرة يوم الاثنين وكون الوفاة يوم الاثنين. قال: فإن هذه أطوار الانتقالات النبوية وجودا ونبوة ومعراجا وهجرة ووفاة، فهذه خمسة أطوار، فيكون يوم الاثنين في حقه صلى الله عليه وسلم كيوم الجمعة في حق آدم عليه الصلاة والسلام فيه خلق وفيه أنزل إلى الأرض وفيه تاب الله عليه وفيه مات، وكانت أطواره الوجودية والدينية خاصة بيوم واحد. انتهى.
السيرة النبوية لابن كثير: (93/2، ط: دار المعرفة)
فصل في الإسراء برسول الله صلى الله عليه وسلم من مكة إلى بيت المقدس، ثم عروجه من هناك إلى السموات، وما رأى هنالك من الآيات ذكر ابن عساكر أحاديث الإسراء في أوائل البعثة، وأما ابن إسحاق فذكرها في هذا الموطن بعد البعثة بنحو من عشر سنين.
وروى البيهقي من طريق موسى بن عقبة، عن الزهري أنه قال: أسري برسول الله صلى الله عليه وسلم قبل خروجه إلى المدينة بسنة.
قال: وكذلك ذكره ابن لهيعة، عن أبي الأسود، عن عروة.
ثم روى الحاكم، عن الأصم، عن أحمد بن عبد الجبار، عن يونس بن بكير، عن أسباط بن نصر، عن إسماعيل السدي.
أنه قال: فرض على رسول الله صلى الله عليه وسلم الخمس ببيت المقدس ليلة أسري به، قبل مهاجره بستة عشر شهرا.
فعلى قول السدي يكون الإسراء في شهر ذي القعدة، وعلى قول الزهري وعروة
يكون في ربيع الأول.وقال أبو بكر بن أبي شيبة: حدثنا عثمان، عن سعيد بن ميناء، عن جابر وابن عباس، قالا: ولد رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفيل يوم الاثنين الثاني عشر من ربيع الأول، وفيه بعث، وفيه عرج به إلى السماء، وفيه هاجر، وفيه مات.
فيه انقطاع.وقد اختاره الحافظ عبد الغني بن سرور المقدسي في سيرته، وقد أورد حديثا لا يصح سنده، ذكرناه في فضائل شهر رجب، أن الإسراء كان ليلة السابع والعشرين من رجب والله أعلم
ھادی اعظم لحافظ سید فضل الرحمن: (318/1، ط: زوار اکیدمی)
قصص القرآن لمولانا حفیظ الرحمن سیوھاروی: (521/4، ط: دار الاشاعت)
سات مسائل لمفتی رشید احمد لدھیانوی: (ص: 14، ط: دارالافتاء و الارشاد)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی