سوال:
مفتی صاحب ! اگر کوئی شخص سلام کرے، اور سلام سننے والا سلام کا جواب نہ دے، تو اس بارے میں کیا شرعی حکم ہے؟
جواب: ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَاؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا۔
ترجمہ: "اور جب تم کو کوئی سلام کرے، تو تم(جواب میں) اس سے اچھے الفاظ میں سلام کرو، یا ویسے ہی الفاظ کہہ دو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر حساب لیں گے"۔
(سورۃ النساء، رقم الآیۃ:86)
مسلمان کے سلام کا جواب دینا واجب ہے، بلاوجہ جواب نہ دینے والا گناہگار ہوگا۔
البتہ کچھ مخصوص اعمال میں مصروف لوگوں پر سلام کا جواب دینا واجب نہیں، جیسے :
1۔نمازپڑھنے والا۔
2۔تلاوت کرنے والا۔
3۔حدیث، فقہ وغیرہ کا درس دینے والا۔
4۔ذکر و اذکار میں مشغول شخص۔
5۔اذان دینے والا۔
6۔اقامت کہنے والا۔
7۔خطیب جب خطبہ دے رہا ہو۔
8۔اذان، اقامت اور خطبات کے دوران۔
9۔کھانے میں مصروف شخص۔
10۔ قضاء حاجت میں مشغول آدمی۔
11۔جماع میں مشغول فرد۔
12۔جس آدمی کا ستر کھلا ہو۔
13۔ وضو میں مصروف شخص۔
مندرجہ بالا صورتوں میں سلام کا جواب دینا واجب نہیں ہے، البتہ ان میں سے بعض صورتوں میں عمل موقوف کرکے جواب دیا جا سکتا ہے، اور بعض صورتوں میں جواب کی بالکل بھی گنجائش نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الآیۃ: 86)
اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَاؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًاo
رد المحتار: (617/1، ط: سعید)
" یکره السلام علی العاجز عن الجواب حقیقةً کالمشغول بالأکل أو الاستفراغ، أو شرعاً کالمشغول بالصلاة وقراءة القرآن، ولو سلم لایستحق الجواب".
الفتاوی الھندیہ: (325/5، ط: رشیدیۃ)
"السلام تحية الزائرين، والذين جلسوا في المسجد للقراءة والتسبيح أو لانتظار الصلاة ما جلسوا فيه لدخول الزائرين عليهم، فليس هذا أوان السلام فلا يسلم عليهم، ولهذا قالوا: لو سلم عليهم الداخل وسعهم أن لا يجيبوه، كذا في القنية.
يكره السلام عند قراءة القرآن جهراً، وكذا عند مذاكرة العلم، وعند الأذان والإقامة، والصحيح أنه لا يرد في هذه المواضع أيضاً، كذا في الغياثية."
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی