سوال:
مفتی صاحب ! بینک میں امامت کرنا کیسا ہے اور اس پر بینک یا بینک ملازمین آپس میں چندہ کرکے مؤذن یا امام کو تنخواہ ادا کریں تو وہ تنخواہ لینا جائزہے یا نہیں؟
جواب: بینک میں امامت کرنا جائز ہے٬ جہاں تک امامت کے عوض بینک سے ملنے والی تنخواہ کا حکم ہے٬ تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ مستند علماء کرام کی زیرنگرانی شرعی اصولوں کے مطابق کام کرنے والے غیر سودی بینک سے امامت کی تنخواہ لینے میں کوئی قباحت نہیں ہے٬ نیز سودی بینک میں موجود ساری کی ساری رقوم سودی اور حرام نہیں ہوتیں، بلکہ اس میں کئی قسم کی حلال اور حرام رقمیں مخلوط ہوتی ہیں٬ جبکہ بینک میں موجود اکثر رقوم حلال ہوتی ہیں، لھذا اگر بینک اس مجمومی مخلوط رقم سے امام یا موذن کو تنخواہ دے٬ تو وہ تنخواہ حرام نہیں ہوگی۔
جہاں تک بینک ملازمین کا اپنی طرف سے امام یا موذن کو تنخواہ دینے کا تعلق ہے٬ تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ بینک مستند علماء کرام کی زیرنگرانی شرعی اصولوں کے مطابق کام کر رہا ہے٬ تو وہاں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہیں حلال ہیں٬ اس لئے امام یا موذن کیلئے ان سے تنخواہ لینا جائز ہے٬ جبکہ سودی بینک میں جن ملازمین کو ناجائز کام کے عوض تنخواہ ملتی ہے٬ تو چونکہ ناجائز کام کے عوض تنخواہ حلال نہیں ہے٬ اور حرام رقم سے امام یا موذن کو تنخواہ دینے سے وہ رقم حلال نہیں ہوگی٬ بلکہ وہ بدستور حرام ہی رہتی ہے٬ لہذا بینک ملازمین کا اپنی حرام آمدنی سے امام/موذن کو تنخواہ دینا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوى الهندية: (342/5)
"أهدى إلى رجل شيئاً أو أضافه، إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس، إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لايقبل الهدية ولايأكل الطعام، إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع ۔ ولا يجوز قبول هدية أمراء الجور ؛ لأن الغالب في مالهم الحرمة إلا إذا علم أن أكثر ماله حلال، بأن كان صاحب تجارة أو زرع فلا بأس به ؛ لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام، فالمعتبر الغالب، وكذا أكل طعامهم"
الدر المختار مع رد المحتار: (مطلب البیع الفاسد لا یطیب لہ، 145/4)
"(قولہ الحرام ینتقل) ای تنتقل حرمتہ وان تداولتہ الایدی وتبدلت الاملاک، قولہ: ولا للمشتری منہ فیکون بشرائہ منہ مسیئا لانہ ملکہ بکسب خبیث وفی شرائہ تقریر للخبث ویؤمر بما کان یؤمر بہ البائع من ردہ علی الحربی"
کذا فی تبویب فتاوی دار العلوم کراتشی، رقم الفتوی: 85/105
و اللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی