سوال:
مفتی صاحب ! قرآن پاک میں جو ذکر ہے کہ اپنی کمائی کا دس فیصد یتیم، غریب اور راہگیر کو دینے کی ترغیب آئی ہے، کیا یہ دس فیصد اپنے غریب بہن بھائی کو جو صاحب نصاب نہ ہوں، تو ان کو دے سکتے ہیں؟
جواب: سورۃ الانفال کی آیت نمبر :41 میں مال غنیمت کے احکام اور اس کی تقسیم کا قانون بیان کیا گیا ہے، مال غنیمت سے مراد وہ مال ہے، جو غیر مسلموں سے جہاد کے نتیجے میں مسلمانوں کو حاصل ہو، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے سابقہ امتوں کے لئے مال غنیمت حلال نہ تھا، اس امت کے لیے بطور انعام حلال کردیا گیا۔
آیت کریمہ کے مطابق کل مال غنیمت کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جائیگا، ان پانچ میں سے چار حصے مجاہدین میں تقسیم کئے جائیں گے، جبکہ پانچواں حصہ (٪20) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص ہے، جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صوابدید کے مطابق اپنے اہل قرابت، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں میں تقسیم فرمائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (الانفال، الآیۃ: 41)
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌo
مشکوٰۃ المصابیح: (رقم الحدیث: 5747)
قال رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم : اعطیت خمسا لم یعطہن احد قبلی، نصرت بالرعب مسیرۃ شہر، و جعلت لی الارض مسجدا و طہورا فایما رجل من امتی ادرکتہ الصلوۃ فلیصل، و احلت لی الغنائم و لم تحل لاحد قبلی، و اعطیت الشفاعۃ، و کان النبی یبعث الی قومہ خاصۃ و بعثت الی الناس عامۃ ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی