سوال:
السلام علیکم،
میں نے 2009 میں شادی کی تھی، میری تین بیٹیاں ہیں، جن کی عمر 11 ، 6 اور 5 سال ہے۔
دسمبر 2019 سے میری اہلیہ نے مجھے چھوڑ دیا تھا، اور کسی اور مرد کے ساتھ رہائش اختیار کرلی تھی، جبکہ ہمارے درمیان خلع یا طلاق کچھ بھی نہیں ہوا تھا، ان حالات میں اپنی سی کوشش کرنے کے بعد فروری 2020 میں طلاق دے دی تھی۔
سابقہ بیوی کے ساتھ یہ بات طے ہوئی تھی کہ بچیوں کو آپ کے پاس رہنے کے لیے ہر پندرہ دن کے بعد صرف ایک رات کے لیے اس شرط پر بھیجا جائے گا کہ آپ کے شوہر گھر پر نہ ہوں۔
اس بات کا خیال کیا جاتا تھا، جس کی معلومات میں بچیوں سے کرتا رہتا تھا۔ اب میری بچیوں نے مجھے بتایا کہ اب انکے شوہر اس بات کا خیال نہیں کرتے اور بچیوں کی ماں یہ کہتی ہیں کہ میرا شوہر رات گھر پر نہیں ہوگا، مگر دن کو رہے گا۔ اور مجھے اپنے شوہر پر بھروسہ ہے، میری بچیوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ جب آپ ہمیں چھوڑ کر جاتے ییں، اس کے تھوڑی دیر بعد وہ صاحب گھر پر آ جاتے ہیں، ان کی رہائش قریب ہی ہے۔
اس بارے میں شرعی طور پر رہنمائی فرمائیں کہ ایسی صورت میں بچیوں کے ملانے کے معاملے میں کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے؟
جواب: واضح رہےکہ طلاق کی وجہ سے اگر میاں بیوی دونوں کے درمیان علیحدگی ہو جائے، تو ماں لڑکے کو سات برس اور لڑکی کو نو برس تک اپنے پاس رکھ سکتی ہے، بشرطیکہ کسی دوسرے ایسے شخص سے شادی نہ کرلے٫ جو بچی کا غیر محرم ہو٫ اس صورت میں سات برس اور نو برس سے کم میں بھی ماں کو پرورش کاحق باقی نہیں رہتا ہے ،تاہم بچوں سے ملاقات ماں کاحق ہے ،اور اگر بچیاں ماں کے گھر جاتی ہیں تو ماں کے شوہر سے ان کا پردہ نہیں ہیں ، یہ بچیاں اس کے لیے محرم ہیں، البتہ اگر کسی فتنہ کا اندیشہ ہو تو منع کیا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الآیۃ: 23)
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًاo
سنن أبی داؤد: (رقم الحدیث: 2276، 283/2، ط: المكتبة العصرية)
عن جده عبد الله بن عمرو، أن امرأة قالت: يا رسول الله، إن ابني هذا كان بطني له وعاء، وثديي له سقاء، وحجري له حواء، وإن أباه طلقني، وأراد أن ينتزعه مني، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أنت أحق به ما لم تنكحي۔
الدر المختار: (366/3، ط: دار الفکر)
(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض)۔۔۔۔۔ (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى.
و فیہ ایضا: (365/3، ط: دار الفکر)
و) الحاضنة (يسقط حقها بنكاح غير محرمه) أي الصغير۔
المحیط البرھانی: (170/3، ط: دار الکتب العلمیۃ)
إذا مَنَع الرجل أم المرأة أو أباها أو «أحداً من أهلها من الدخول عليها في منزله فله ذلك، ولكن لا يمنعهم من النظر إليها وتعاهدها والتكلم معها، فيقوموا على باب الدار والمرأة داخل الدار. هذا في حق (أهلها) وكل ذي رحم محرم ومن لا يتهمه الزوج، أما إذا لم يكن محرماً ويتهمه الزوج كان له أن يمنعه من النظر إليها، وكذلك إن كان لها ولد من غيره ليس له أن يمنع بعضهم من أن ينظر إلى البعض، فروي عن أبي يوسف رحمه الله أن الزوج لا يملك أن يمنع الأبوين عن الدخول عليها للزيارة في كل شهر مرتين وأما يمنعهما من الكينونة.
وفي «فتاوى أبي الليث» رحمه الله عن الفقيه أبي بكر الإسكاف رحمه الله أن الزوج لا يملك أن يمنع الأبوين عن الدخول عليها عن الزيارة في كل جمعة وأما يمنعهما عن الكينونى وعليه الفتوى. وأما غير الأبوين من المحارم، فقد ذكر الخصاف أيضاً في هذين الموضعين أنه يمنعهم عن الزيارة في كل سنة وعليه الفتوى. وأما إذا أرادت المرأة أن تخرج إلى زيارة المحارم نحو الخالة أو العمة أو إلى زيارة الأبوين فهو على هذا يعني لا يمنعها عن زيارة الأبوين في كل جمعة وعن زيارة سائر المحارم في كل سنة.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی