سوال:
ابو داؤد کی اس حدیث(مإِذَا سَمِعَ أَحَدُكُمُ النِّدَاءَ وَالإِنَاءُ عَلَى يَدِهِ فَلَا يَضَعْهُ حَتَّى يَقْضِىَ حَاجَتَهُ مِنْهُ) سے معلوم ہوتا ہے کہ اذان ہونے کے بعد بھی سحری مکمل کرنا جائز ہے، جبکہ مسئلہ تو اس طرح ہے کہ جیسے ہی صبح صادق ہو تو اب کھانے کی اجازت نہیں ہے، چاہے ابھی تک اذان نہ ہوئی ہو۔ براہ کرم وضاحت فرمادیں۔
جواب: سوال میں مذکور حدیث میں لفظ "نداء" کے دو مفہوم بیان کیے گئے ہیں، ذیل میں انہیں بیان کیا جاتا ہے:
1- نداء سے مراد حضرت بلال رضی اللّٰہ عنہ کی اذان ہو، تو ایسی صورت میں یہ حکم آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے زمانہ سے متعلق ہوگا، اس کا معنی یہ ہوگا کہ حضرت بلال رضی اللّٰہ عنہ چونکہ طلوع فجر سے پہلے رات میں ہی اذان دیا کرتے تھے، جس پر آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے یہ حکم ارشاد فرمایا، جیساکہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إنَّ بِلالاً يُؤَذِّن بِلَيلٍ، فَكُلُوا واشرَبُوا حتَّى تَسمَعُوا أَذَان ابنِ أُمِّ مَكتُوم».
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک بلال رات کو اذان دے دیتا ہے، لہذا تم اس وقت تک کھاتے پیتے رہو، جب تک تم ابن ام مکتوم کی اذان نہ سن لو۔
اس حدیث کو سامنے رکھا جائے تو سوال میں مذکور حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ چونکہ حضرت بلال لوگوں کو سحری کے لئے جگانے کے لیے اذان دیتے تھے، تو کہیں لوگ غلط فہمی میں نہ مبتلا ہو جائیں، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ارشاد فرمایا: کہ حضرت بلال کی اذان سن کر کھانا پینا چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ جب طلوع فجر ہو، تب سحری کھانا بند کرو۔
2- اور نداء کے لفظ سے فجر کی اذان مراد ہو، تو معنی یہ ہوگا کہ سحری کا وقت ختم ہونے کا تعلق طلوع فجر سے ہے، اذان فجر کے ساتھ نہیں ہے، لہذا اگر کبھی مؤذن طلوع فجر سے پہلے اذان دیدے، تب بھی سحری کا وقت باقی رہے گا، ختم نہیں ہوگا، لہذا اذان کے بعد طلوع فجر تک کھا پی سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بذل المجهود: (باب الرجل يسمع النداء و الإناء على يده، رقم الحدیث: 2350)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ، نَا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِى سَلَمَةَ، عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-: "إِذَا سَمِعَ أَحَدُكُمُ النِّدَاءَ وَالإِنَاءُ عَلَى يَدِهِ فَلَا يَضَعْهُ حَتَّى يَقْضِىَ حَاجَتَهُ مِنْهُ".
قال في "الدرجات": هذا يحمل على قوله: "إن بلالًا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى يؤذن ابن أم مكتوم"، وقال البيهقي: هذا أرجح، فإنه محمول عند عوام أهل العلم على أنه - صلى الله عليه وسلم - علم أن المنادي كان ينادي قبل طلوع الفجر بحيث يقع شربه قبل طلوع الفجر، انتهى.
وقال القاري: وهذا إذا علم أو ظن عدم الطلوع، وقال ابن الملك: هذا إذا لم يعلم طلوع الصبح، أما إذا علم أنه قد طلع أو شك فيه فلا.
قلت: والأولى في تأويل هذا الحديث عندي أن يقال: إن في هذا القول أشار رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إلى أن تحريم الأكل متعلق بالفجر لا بالأذان، فإن المؤذن قد يبادر بالأذان قبل الفجر، فلا عبرة بالأذان إذا لم يعلم طلوع الفجر، وهذا الحكم للعارفين بالفجر، وأما العوام الذين لا يعرفون فعليهم بالاحتياط، والله تعالى أعلم.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی