سوال:
ایک شخص اپنی تائی سے 3 سال تک زنا کرتا رہا، پکڑے جانے پر دونوں اپنے جرم کا اقرار بھی کر چکے ہیں اور بکر نے اپنی بیوی کو معاف بھی کر دیا ہے، لیکن ابھی تک ازدواجی تعلق قاٸم نہیں کیا، کیونکہ بکر کو اس عورت کے ساتھ نکاح کے قاٸم رہنے پر شک ہے۔
اس مسٸلے پر چند سوال دریافت طلب ہیں:
1) کیا بکر کا اس عورت کے ساتھ نکاح قاٸم ہے؟
2) اگر نکاح قاٸم نہیں رہا تو بکر کا اس عورت سے علیحدہ ہو جانا ہی کافی ہے یا باقاٸدہ طلاق دینا ہو گی؟
3) اگر طلاق دینا ہو گی تو طلاق کس طرح دی جائے یعنی ایک ہی وقت میں تین طلاق دی جائے یا ایک ایک کر کے مدت پوری ہونے پر طلاق دی جائے؟
4) اگر نکاح اپنے شوہر کےبھتیجے سے زنا کرنے کی وجہ سے باطل ہو چکا ہے تو عورت کی عدت کب سے شروع ہوگی؟
جواب: شادی شدہ عورت کا اپنے بھتیجے کے ساتھ بدکاری کرنا انتہا درجے کی بے حیائی اور سنگین جرم ہے، اس پر لازم ہے کہ وہ خوب گڑگڑا کر اس گناہ سے توبہ واستغفار کرے، تاہم اس گناہ کی وجہ سے اس کا نکاح برقرار ہے، اس کے شوہر کو اختیار ہوگا کہ وہ اس کو اپنے نکاح میں رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے، لیکن آئندہ کے لیے اس سے وعدہ لے کہ وہ اس گناہ کے قریب نہیں جائے گی اور خود بھی اس کی نگرانی کرتا رہے، اگر نکاح میں رکھتا ہے، تو بہتر یہ ہے کہ ایک ماہواری آنے تک اس کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم نہ کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (الإسراء، الآیۃ: 32)
وَلَا تَقْرَبُوْا الزِّنَا ....الخ
سنن أبي داؤد: (أول کتاب النکاح، رقم الحدیث: 2049)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: جاء رجل إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال:إن امرأتي لا تمنع ید لامس، قال: "غربہا" قال: إني أخاف أن تتبعہا نفسي قال: "فاستمتع بہا".
رد المحتار: (34/3)
"لو زنت امرأۃ رجل لم تحرم علیہ، وجازلہ وطؤہا عقب الزنا الخ".
و فیہ أیضا: (50/3)
"والمزني بہا لاتحرم علی زوجہا".
الدر المختار مع رد المحتار: (427/6)
"ولایجب علی الزوج تطلیق الفاجرۃ".
"ولاعلیہا تسریح الفاجر إلا إذا خافا أن لا یقیما حدوداﷲ فلاباس أن یتفرقا والفجور یعم الزنا وغیرہ الخ".
و فیھا ایضاً: (قبیل فروع باب العدۃ، 667/2)
"وفی شرح الوہبانیۃ لو زنت المرأۃ لا یقربہا زوجہا حتی تحیض لاحتمال علوقہا من الزنا فلا یسقی ماؤہ زرع غیرہ فلیحفظ لغرابتہ".
امر بحفظہ لا لیعتمد بل لیجتنب بقرینۃ قولہ لغرابتہ فان المشہور فی المذہب ان ماء الزنا لا حرمۃ لہ لقولہﷺ للذی شکا الیہ امرأتہ انہا لا تدفع ید لا مس طلقہا فقال انی احبہا وہی جمیلۃ فقال لہﷺ استمتع بہا واما قولہ فلا یسقی ماؤہ زرع غیرہ فہو وان کان وارداً عنہﷺ لکن المراد بہ وطء الحبلیٰ لانہ قبل الحبل لا یکون زرعا بل ماء مسفوحا و لہذا قالوا لو تزوج حبلی من زنا لا یقربہا حتی تضع لئلا یسقی زرع غیرہ لان بہ یزداد سمع الولد وبصرہ حدۃ فقد ظہر بما قررناہ الفرق بین جواز وطء الزوجۃ اذا رآہا تزنی وبین عدم جواز وطء التی تزوجہا وہی حبلی من زنا".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی