عنوان: آزمائش اور عذاب میں فرق کی پہچان(717-No)

سوال: اللہ تعالی کی طرف سے انسان پر جو مشکلات اور تکالیف آتی ہیں، کیا یہ اللہ تعالی کی طرف سے آزمائش ہوتی ہیں یا سزا ہوتی ہیں؟

جواب: انسان کوجتنی پریشانیاں دنیا میں پیش آتی ہیں، وہ دوقسم کی ہوتی ہیں:
۱) پہلی قسم کی پریشانیاں وہ ہیں جو دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے قہر اور  گناہوں کی وجہ سےعذاب ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ گناہوں کی اصل سزا تو انسان کے لیے  آخرت میں رکھی گئی ہے، لیکن بعض اوقات اللہ تعالیٰ انسان کو دنیا میں بھی عذاب کا مزہ چکھادیتے ہیں، جیسے قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے:وَلَنُذِیْقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَکْبَرِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ(سورۂ الٓم سجدہ: پ ۲۱)
ترجمہ: آخرت میں جو بڑا عذاب آنے والا ہے ہم اس سے پہلے دنیامیں بھی تھوڑا سا عذاب چکھا دیتے ہیں تاکہ یہ لوگ اپنی بداعمالیوں سے باز آجائیں ۔
۲) دوسری قسم کی پریشانیاں وہ ہوتی ہیں جن کے ذریعہ بندے کے درجات بلند کیے جاتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوں میں فرق کیسے کریں گے؟ علماء کرام نے قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کی چند علامات بیان کی ہیں ، جن سے آزمائش اور عذاب میں فرق واضح ہو جاتا ہے۔
پہلا فرق:
اگر انسان ان تکالیف میں مبتلاء ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چھوڑدے اور اس تکلیف کے نتیجے میں وہ اللہ تعالیٰ کی تقدیرکا شکوہ کرنے لگے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیئے ہوئے احکامات چھوڑدے اور اللہ تعالی سے مزید دور ہو جائے تو یہ اس بات کی علامات ہیں کہ جو تکلیف اس پر آئی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس انسان پر قہر، عذاب اور سزا ہے۔
اور اگر انسان تکالیف آنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کر رہا ہو اور دعا کر رہا ہو کہ یا اللہ ! میں کمزور ہوں ، اس تکلیف کو برداشت نہیں کرسکتا وغیرہ تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ تکلیف اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہے جو اس کے لئے اجر و ثواب کا باعث ہے، یعنی عذاب اور آزمائش میں بس اتنا فرق ہے کہ آزمائش میں سجدے طویل ہو جاتے ہیں اور عذاب میں گناہ۔
دوسرافرق:
اگر پریشانیاں بدکاریوں اور بد اعمالیوں کی وجہ سے ہوں تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا اور عذاب کی ایک شکل ہے، اوراگر پریشانیاں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے نتیجہ میں ہوں، جیسےکسی سنت رسول ﷺ پر عمل کرنےکی وجہ سے پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے تو اس طرح کی پریشانیاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہیں۔
انسان کو ہر پریشانی پر اپنے کردار کا محاسبہ کرنا چاہیے، کیونکہ انسان کو جو مصیبت پہنچتی ہے اس کے پیچھے اس کا کوئی عمل کارفرما ہوتا ہے اور جو نعمت ملتی ہے یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ (سورة النساء :79) ترجمہ: تمہیں جو کوئی اچھائی پہنچتی ہے تو وہ محض اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور جو کوئی برائی پہنچتی ہے تو وہ تمہارے اپنے سبب سے ہوتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (النساء، الایة: 79)
مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولًا وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًاo

و قوله تعالی: (الروم، الایة: 41- 42)
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَo قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلُ كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُشْرِكِينَo

تفسیر ابن کثیر: (287/6، ط: دار الکتب العلمیة)
وقال زيد بن رفيع: {ظهر الفساد} يعني: انقطاع المطر عن البر يعقبه القحط، وعن البحر تعمى دوابه. رواه ابن أبي حاتم. وقال: حدثنا محمد بن عبد الله بن يزيد المقري، عن سفيان، عن حميد بن قيس الأعرج، عن مجاهد: {ظهر الفساد في البر والبحر} ، قال: فساد البر: قتل ابن آدم، وفساد البحر: أخذ السفينة غصبا. وقال عطاء الخراساني: المراد بالبر: ما فيه من المدائن والقرى، وبالبحر: جزائره. والقول الأول أظهر، وعليه الأكثر، ويؤيده ما ذكره محمد بن إسحاق في السيرة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم وسلم صالح ملك أيلة، وكتب إليه ببحره، يعني: ببلده.
ومعنى قوله تعالى: {ظهر الفساد في البر والبحر بما كسبت أيدي الناس} أي: بان النقص في الثمار والزروع بسبب المعاصي.
وقال أبو العالية: من عصى الله في الأرض فقد أفسد في الأرض؛ لأن صلاح الأرض والسماء بالطاعة؛ ولهذا جاء في الحديث الذي رواه أبو داود: "لحد يقام في الأرض أحب إلى أهلها من أن يمطروا أربعين صباحا" . والسبب في هذا أن الحدود إذا أقيمت، انكف الناس -أو أكثرهم، أو كثير منهم -عن تعاطي المحرمات، وإذا ارتكبت المعاصي كان سببا في محاق البركات من السماء والأرض؛ ولهذا إذا نزل عيسى [ابن مريم] عليه السلام، في آخر الزمان فحكم بهذه الشريعة المطهرة في ذلك الوقت، من قتل الخنزير وكسر الصليب ووضع الجزية، وهو تركها -فلا يقبل إلا الإسلام أو السيف، فإذا أهلك الله في زمانه الدجال وأتباعه ويأجوج ومأجوج، قيل للأرض: أخرجي بركاتك. فيأكل من الرمانة الفئام من الناس، ويستظلون بقحفها، ويكفي لبن اللقحة الجماعة من الناس. وما ذاك إلا ببركة تنفيذ شريعة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكلما أقيم العدل كثرت البركات والخير؛ [ولهذا] ثبت في الصحيح: "إن الفاجر إذا مات تستريح منه العباد والبلاد، والشجر والدواب"....
وقوله: {ليذيقهم بعض الذي عملوا لعلهم يرجعون} أي: يبتليهم بنقص الأموال والأنفس والثمرات، اختبارا منه، ومجازاة على صنيعهم، {لعلهم يرجعون} أي: عن المعاصي، كما قال تعالى: {وبلوناهم بالحسنات والسيئات لعلهم يرجعون} [الأعراف: 168] .

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 3553 Jan 26, 2019
Azmaish aurazab main faraq ki pehchan, Recognize the difference between trial and punishment

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Beliefs

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.