سوال:
السلام علیکم، ایک دینی مسئلے میں رہنمائی کی ضرورت ہے، از راہ کرم جواب عنایت فرمائیں۔
میری والدہ کا حال ہی میں انتقال ہوا، عرصہ سات سال سے وہ فالج کا شکار تھیں، چھ سال تک نمازیں پڑھتی رہی ہیں، البتہ روزے ساتوں سال نہ رکھ سکیں، اور آخری ایک سال میں نہ کوئی نماز پڑھی نہ روزہ رکھا، اور اس آخری ایک سال میں حواس بھی کام کرنے چھوڑ گئے تھے، یعنی دن رات کی تمیز نہ تھی، نہ کھانے پینے، نہ صفائی ستھرائی کا اور نہ دیگر باتوں کا ہوش رہتا تھا، یادداشت صرف اس قدر تھی کہ بہت قریبی جاننے والوں مثلاً بیٹوں یا پوتوں یا خال خال لوگوں کو پہچان لیتی تھیں، باتیں بے ربط ہوتیں، کچھ ٹھیک تو کچھ بے سروپا، مطلب یہ کہ دماغ نے اکثر کام کرنا چھوڑ دیا تھا، بہت کم ساتھ دیتا تھا، اور فالج کی بیماری تو ساتھ تھی ہی۔
اب ہم ان کی طرف سے تبرعاً فوت شدہ روزوں اور نمازوں کا فدیہ دینا چاہتے ہیں، تو سوال یہ ہے کہ اس آخری ایک سال کے روزوں اور نمازوں کا بھی فدیہ ادا کریں یا نہیں؟
فدیہ کا طریقہ بھی بتا دیں، نیز فدیہ میں گذرے سالوں کی قیمت کا اعتبار ہوگا یا تمام کیلئے حال کا؟
ایک اور آخری گذارش یہ ہے کہ فدیہ کی تمام اشیاء کی رقوم کا حالیہ حساب بھی بتا دیں تاکہ آسانی ہو۔
اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے۔ آمین
جواب: 1) اگر آپ کی والدہ ساتویں سال اس حد تک دماغی توازن کھوچکی تھی کہ ان کو اتنی سمجھ بھی باقی نہیں رہی تھی کہ وہ نماز روزے کو اپنے اوپر فرض سمجھیں، اس صورت میں نماز اور روزے کی فرضیت کا حکم ان سے ساقط (ختم) ہوچکا تھا، لہذا ان کی طرف سے ساتویں سال کے نماز اور روزوں کا فدیہ دینا بھی لازمی نہیں ہوگا۔
واضح رہے کہ اگر آپ کی والدہ کو ساتویں سال رمضان المبارک کے مہینے میں کچھ افاقہ ہوا تھا ( یعنی پورا مہینہ ذہنی توازن خراب ہونے کی وجہ سے بدحواسی اور جنون میں نہیں گزرا تھا) تو اس صورت میں سابقہ دنوں کے روزوں کی قضا ان کے ذمہ لازمی تھی، اگر وہ پوری زندگی ان روزوں کی قضا نہ کرسکیں تو وصیت کرنے کی صورت میں ان روزوں کا فدیہ ادا کرنا لازمی ہوگا۔
2) ایک روزے کے فدیہ کی مقدار پونے دو کلو گندم یا اس کی موجودہ بازاری قیمت ہے، اور جس قدر روزے رہ گئے ہیں، ان کا حساب لگایا جائے، اسی کے حساب سے فی روزے کے بدلے ایک فدیہ ادا کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الآیۃ: 184)
اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ ؕ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ وَ عَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدۡیَۃٌ طَعَامُ مِسۡکِیۡنٍ ؕ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَیۡرًا فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ ؕ وَ اَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَo
بدائع الصنائع: (89/2، ط: دار الکتب العلمیہ)
والنائم بخلاف الجنون المستوعب فإن هناك في إيجاب القضاء حرجا لأن الجنون المستوعب قلما يزول بخلاف الإغماء، والنوم إذا استوعب لأن استيعابه نادر، والنادر ملحق بالعدم بخلاف الجنون فإن استيعابه ليس بنادر، ويستوي الجواب في وجوب قضاء ما مضى عند أصحابنا في الجنون العارض ما إذا أفاق في وسط الشهر، أو في أوله حتى لو جن قبل الشهر ثم أفاق في آخر يوم منه يلزمه قضاء جميع الشهر۔
و فیہ ایضاً: (الصوم باب خامس، 206/1، ط: ماجدیۃ)
فالشیخ الفانی الذی لا یقدر علی الصیام یفطر ویطعم لکل یوما مسکینا۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی