سوال:
مفتی صاحب! ایک مولوی صاحب کہہ رہے ہیں کہ نفل کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا جائز ہے اور دلیل میں بخاری کی یہ حدیث "عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمْ فِي بَيْتِ أُمِّ سُلَيْمٍ ، فَقُمْتُ وَيَتِيمٌ خَلْفَهُ ، وَأُمُّ سُلَيْمٍ خَلْفَنَا." پیش کر رہے ہیں، براہ کرم تسلی بخش جواب عنایت فرمادیں۔
جواب: نمازِ کسوف، نمازِ استسقاء اور تراویح کی نماز کے علاوہ کسی بھی نفل نماز کی جماعت تداعی کے ساتھ (یعنی لوگوں کو دعوت دے کر اہتمام کے ساتھ جمع کرنا) حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے، اس لئے فقہ حنفی میں نفل کی جماعت تداعی کے ساتھ مکروہ قرار دی گئی ہے، امام کے علاوہ چار یا چار سے زائد مقتدیوں کا ہونا فقہاء احناف کے ہاں "تداعی" کی تعریف میں شامل ہے۔
سوال میں جس حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے، اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علاؤہ تین مقتدی ہیں، اس لیے یہ تداعی کی تعریف میں شامل نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
غنیة المستملي: (ص: 432، ط: سهيل اكيدمي)
واعلم أن النفل بالجماعة علی سبيل التداعي مكروه، فعلم ان کلا من صلوٰۃ الرغائب لیلۃ اول جمعۃ من رجب، و صلوٰۃ البراءۃ لیلۃ النصف من شعبان و صلوٰۃ القدر لیلۃ السابع والعشرین من رمضان بالجماعۃ بدعۃ مکروھۃ۔
الدر المختار: (48/2، سعید)
ولایصلی الوتر و لا التطوع بجماعة، خارج رمضان، أي يكره ذلك على سبيل التداعي؛ بأن يقتدي أربعة بواحد۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی