عنوان: احادیث کی روشنی میں صلاۃ الاوابین اور نماز چاشت کی حقیقت اور اس کا طریقہ کار (7219-No)

سوال: ایک صاحب اوابین کی چھ رکعت ایک ہی سلام کے ساتھ پڑھنے کا بتارہے ہیں، جس میں سے دو رکعتیں مغرب کی سنت موکدہ ہو جائینگی اور باقی چار رکعتیں اوابین کی ہو جائینگی، کیا اوابین پڑھنے کا یہ طریقہ درست ہے؟

جواب: واضح رہے کہ صحیح احادیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے چاشت کی نماز کو اوابین کی نماز فرمایا ہے، چنانچہ صحیح مسلم کی روایت ہے:
عَنْ أَيُّوبَ عَنْ الْقَاسِمِ الشَّيْبَانِيِّ أَنَّ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ رَأَى قَوْمًا يُصَلُّونَ مِنْ الضُّحَى فَقَالَ أَمَا لَقَدْ عَلِمُوا أَنَّ الصَّلَاةَ فِي غَيْرِ هَذِهِ السَّاعَةِ أَفْضَلُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "صَلَاةُ الْأَوَّابِينَ حِينَ تَرْمَضُ الْفِصَالُ".
(الصحیح لمسلم: 1777)
ترجمہ:
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ لوگوں کو چاشت کے وقت نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا: ہاں یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ نماز اس وقت کی بجائے ایک اور وقت میں پڑھنا افضل ہے، بے شک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اوابین (اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والےلوگوں) کی نماز اس وقت ہوتی ہے، جب (گرمی سے) اونٹ کے بچوں کے پاؤں جلنے لگتے ہیں۔
لہذا فقہاءِ کرام فرماتے ہیں کہ چاشت کی نماز کا افضل وقت وہ ہے، جب سورج طلوع ہو کر ایک نیزہ تک بلند ہوجائے اور یہ وقت زوال تک رہتا ہے، لہذا اس وقت چاشت کی نماز ادا کرنا افضل ہے، اور یہ اوابین کی نماز کا وقت ہے۔
اور چاشت کی نماز کم از کم دو رکعت اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعتیں ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا عام معمول چار رکعت نمازِ چاشت ادا کرنے کا تھا، اس لیے کم از کم چار رکعت نمازِ چاشت ادا کرنا چاہیے، اور آٹھ رکعتیں پڑھنا افضل ہے۔
نیز مغرب کے فرض اور سنتوں کے بعد جو چھ نوافل پڑھے جاتے ہیں، انہیں بھی "صلاۃ الاوابین" کہا جاتا ہے، ابن المبارک کی الزهد والرقائق میں حضرت محمد بن المنکدر رحمہ اللّٰہ کی مرسل روایت ہے:
1259 - أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ قَالَ: حَدَّثَنِي حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو صَخْرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ الْمُنْكَدِرِ يُحَدِّثُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ صَلَّى مَا بَيْنَ الْمَغْرِبِ إِلَى صَلَاةِ الْعِشَاءِ، فَإِنَّهَا صَلَاةُ الْأَوَّابِينَ» .
(الزهد والرقائق لابن المبارك: 1/ 445)
ترجمہ:
حضرت محمد بن المنکدر رحمہ اللّٰہ سے مرسلا روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے مغرب اور عشاء کے درمیان نفل نماز پڑھی، تو وہ نماز اوابین ہے۔ (یعنی اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنے والوں کی نماز ہے)۔
اور مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہما کی موقوف حدیث ہے:
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ صَلَاۃُ الْاَوَّابِیْنَ مَابَیْنَ اَنْ یَّنْکَفِتَ اَھْلُ الْمَغْرِبِ اِلٰی اَنْ یُّثَوَّبَ اِلَی الْعِشَائِ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج 4ص266،267)
ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’صلوۃ الاوابین‘‘ کا وقت اس وقت سے ہے کہ جب نمازی نماز مغرب پڑھ کر فارغ ہوں اور یہ وقت عشاء کا وقت آنے تک رہتا ہے۔
امام بغوی رحمہ اللّٰہ کی شرح السنۃ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہما کی موقوف حدیث ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ اِنَّ الْمَلَا ئِکَۃَ لَتَحُفُّ بِالَّذِیْنَ یُصَلُّوْنَ بَیْنَ الْمَغْرِبِ اِلَی الْعِشَائِ وَھِیَ صَلَاۃُ الْاَوَّابِیْنَ۔
(شرح السنۃ للبغوی ج 2ص439)
ترجمہ:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فرشتے ان لوگوں کو گھیر لیتے ہیں، جو مغرب اور عشاء کے درمیان نماز پڑھتے ہیں اور یہ’’صلوۃ الاوابین‘‘ ہے۔
ان نوافل کی تعداد کم از کم چھ اور زیادہ سے زیادہ بیس ہے۔
مفتی بہ قول کے مطابق مغرب کے بعد کی دو رکعات سنتِ مؤکدہ کے علاوہ چھ رکعات اوابین کے نوافل کہلائیں گے۔
البتہ بعض فقہاء فرماتے ہیں کہ دو سنتِ مؤکدہ کو ملا کر مزید چار رکعات ادا کرنے سے بھی چھ نوافل کی فضیلت حاصل ہوجائے گی۔
نیز اوابین کی نماز کا طریقہ بھی وہی ہے، جو عام نوافل کے ادا کرنے کا ہے اور اوابین کی چھ رکعتیں دو دو رکعت کر کے پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحیح مسلم: (کتاب صلاۃ المسافرین و قصرہا، رقم الحدیث: 336)
عن عبد اللہ بن الحارث بن نوفل قال : سألت وحرصت علی أن أجد أحدا من الناس یخبرني أن رسول اللہ ﷺ سبّح سُبحۃ الضحی ، فلم أجد أحدا یحدثني ذلک غیر أم ہانئ بنت أبي طالب أخبرتني ’’ أن رسول اللہ ﷺ أتی بعد ما ارتفع النہار یوم الفتح فأتی بثوب فستر علیہ فاغتسل ثم قام فرکع ثمان رکعات ‘‘.

و فیہ أیضًا: (رقم الحدیث: 719)
عن عائشۃ قالت : ’’ کان رسول اللہ ﷺ یصلي الضحی أربعًا ویزید ما شاء اللہ ‘‘ ۔

و فیہ أیضًا: (رقم الحدیث: 720)
عن أبي ذر عن النبي ﷺ قال : ’’ یصبح علی کل سلامی من أحدکم صدقۃ فکل تسبیحۃ صدقۃ وکل تحمید صدقۃ وکل تہلیلۃ صدقۃ وکل تکبیرۃ صدقۃ وأمر بالمعروف صدقۃ ، ونہي عن المنکر صدقۃ ویجزئ من ذلک رکعتان یرکعہما من الضحی".

سنن الترمذي: (باب ما جاء في صلاۃ الضحی ، رقم الحدیث: 473)
عن أنس بن مالک قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ﷺ : ’’ من صلی الضحی ثنتي عشرۃ رکعۃ بنی اللہ لہ قصرًا في الجنۃ من ذہب ‘‘ ۔

و فیہ أیضًا: (رقم الحدیث: 475)
عن أبي الدرداء وأبي ذر ، عن رسول اللہ ﷺ ، عن اللہ تبارک وتعالی أنہ قال : ’’ ابن آدم ! ارکع لي أربع رکعات من أول النہار أکفک آخرہ ‘‘ ۔

و فیہ أیضًا: (رقم الحدیث: 476)
عن أبي ہریرۃ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ﷺ : ’’ من حافظ علی شفعۃ الضحی غفر لہ ذنوبہ وإن کانت مثل زبد البحر".

و فیه ایضاً: (بَابُ مَا جَاءَ فِي فَضْلِ التَّطَوُّعِ وَ سِتِّ رَكَعَاتٍ بَعْدَ المَغْرِبِ، رقم الحدیث: 435)
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ يَعْنِي مُحَمَّدَ بْنَ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيَّ الْكُوفِيَّ قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الحُبَابِ قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَبِي خَثْعَمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى بَعْدَ المَغْرِبِ سِتَّ رَكَعَاتٍ لَمْ يَتَكَلَّمْ فِيمَا بَيْنَهُنَّ بِسُوءٍ عُدِلْنَ لَهُ بِعِبَادَةِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً» . وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ صَلَّى بَعْدَ المَغْرِبِ عِشْرِينَ رَكْعَةً بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الجَنَّةِ».
حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ الحُبَابِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي خَثْعَمٍ ، وَسَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ يَقُولُ: «عُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي خَثْعَمٍ مُنْكَرُ الحَدِيثِ» وَضَعَّفَهُ جِدًّا .

الزهد و الرقائق لابن المبارك: (رقم الحدیث: 1259)
أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ قَالَ: حَدَّثَنِي حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو صَخْرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ الْمُنْكَدِرِ يُحَدِّثُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ صَلَّى مَا بَيْنَ الْمَغْرِبِ إِلَى صَلَاةِ الْعِشَاءِ، فَإِنَّهَا صَلَاةُ الْأَوَّابِينَ» .

مصنف ابن أبي شيبة: (رقم الحدیث: 5922)
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: نا مُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَخِيهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عمرو ، قَالَ: «صَلَاةُ الْأَوَّابِينَ، مَا بَيْنَ أَنْ يَلْتَفِتَ أَهْلُ الْمَغْرِبِ، إِلَى أَنْ يَثُوبَ إِلَى الْعِشَاءِ» .

نيل الأوطار: (63/3)
وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إنَّهَا صَلَاةُ الْأَوَّابِينَ» -أي الصلاة بين المغرب والعشاء- قال: وَهَذَا وَإِنْ كَانَ مُرْسَلًا ، لَا يُعَارِضهُ مَا فِي الصَّحِيحِ مِنْ قَوْلِه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «صَلَاةُ الْأَوَّابِينَ إذَا رَمِضَتْ الْفِصَالُ» فَإِنَّهُ لَا مَانِعَ أَنْ يَكُون كُلٌّ مِنْ الصَّلَاتَيْنِ صَلَاةُ الْأَوَّابِينَ.

الدر المختار مع رد المحتار: (باب الوتر و النوافل، 404/2- 405)
"وندب أربع فصاعدا في الضحی علی الصحیح من بعد الطلوع إلی الزوال ، ووقتہا المختار بعد ربع النہار ، وفي ’’ المنیۃ ‘‘ : أقلہا رکعتان وأکثرہا اثنتا عشر ، وأوسطہا ثمان وہو أفضلہا کما في ’’ الذخائر الأشرفیۃ ‘‘ لثبوتہ بفعلہ وقولہ علیہ الصلاۃ والسلام وأما أکثرہا فیقولہ فقط".

حاشیۃ الطحطاوي: (فصل في تحیۃ المسجد و صلاۃ الضحی و احیاء اللیالي، ص: 395)
"وندب صلاۃ الضحی علی الراجح وہي أربع رکعات لما روینا قریبًا عن عائشۃ رضي اللہ عنہا أنہ علیہ السلام کان یصلي الضحی أربع رکعات ویزید ما شاء ، فلذا قلنا : ندب أربع فصاعدا في وقت الضحی وابتداؤہ من ارتفاع الشمس إلی قبیل زوالہا فیزید علی الأربع إلی ثنتي عشرۃ رکعۃ".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 2545 Apr 03, 2021
salatul awwabeen or namaz chasht ki haqeeqat or uska tariqa kaar, The reality of Awabeen and Chasht prayer and its procedure / method

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.