سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! سنا ہے کہ کوئی بھی نفل نماز عصر کے بعد پڑھنا منع ہے، تو کیا یہ حکم عصر کی نماز کے بعد ہے یا اذان کے بعد بھی یہی حکم ہے، مثلاً ہم عصر کی اذان کے بعد فرض سے پہلے تحیتہ المسجد پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب: عصر کی نماز کے فرائض پڑھنے سے پہلے، ہر طرح کی نماز مثلاً سنتیں، نوافل اور قضاء وغیرہ پڑھ سکتے ہیں، البتہ عصر کی نماز کے بعد اصفرارِ شمس (جو تقریباً غروب سے پندرہ، سولہ منٹ پہلے تک کا وقت ہوتا ہے) اس وقت تک قضاء نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں، لیکن سنتیں اور نوافل وغیرہ نہیں پڑھی جا سکتیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذي: (45/1)
"عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: سمعت غیر واحد من أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، منہم عمر بن الخطاب، وکان من أحبہم إلي أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہی عن الصلوۃ بعد الفجر حتی تطلع الشمس، وعن الصلاۃ بعد العصر حتی تغرب الشمس"۔
وہو قول أکثر الفقہاء من أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ومن بعدہم أنہم کرہوا الصلوۃ بعد صلاۃ الصبح حتی تطلع الشمس، وبعد العصر حتی تغرب الشمس، وأما الصلوات الفوائت فلابأس أن تقضي بعد العصر وبعد الصبح۔
الفتاوی الھندیۃ: (52/1، رشیدیۃ)
'' ثلاث ساعات لا تجوز فيها المكتوبة ولا صلاة الجنازة ولا سجدة التلاوة: إذا طلعت الشمس حتى ترتفع، وعند الانتصاف إلى أن تزول، وعند احمرارها إلى أن يغيب إلا عصر يومه ذلك؛ فإنه يجوز أداؤه عند الغروب. هكذا في فتاوى قاضي خان۔ قال الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن الفضل: ما دام الإنسان يقدر على النظر إلى قرص الشمس فهي في الطلوع. كذا في الخلاصة ۔۔۔ تسعة أوقات يكره فيها النوافل وما في معناها لا الفرائض. هكذا في النهاية والكفاية۔
احسن الفتاوی: (141/2- 142)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی