سوال:
مفتی صاحب! کیا مالک مکان / دکان کرایہ دار سے لی ہوئی ایڈوانس کی رقم کو اپنے ذاتی استعمال میں لاسکتا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ ایڈوانس کی رقم مالک مکان کے پاس امانت ہی ہونی چاہیئے، لیکن چونکہ کرایہ دار کی طرف سے عرف عام میں ان پیسوں کو استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے، اس لئے قرضہ شمار ہوگا، لہذا مالک مکان / دکان کے لیے اس رقم کو اپنے استعمال میں لانا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاویٰ التاتار خانیۃ: (رقم: 24172، 54/16، ط: زکریا)
"المودع إذا خلط الودیعۃ بمالہ أو بودیعۃ أخری بحیث لا یتمیز ضمن"
درر الحکام شرح مجلة الأحکام: (الباب الثاني في الوديعة، المادة: 792)
"و للمستودع أن يستعمل الوديعة بإذن صاحبها".
فقہ البیوع: (120/1- 121، ط: معارف القرآن)
"وقد جرت العادة في بعض المعاملات اليوم ان احد طرفی العقد یطالب بدفع بعض المال عند الوعد بالبیع قبل انجاز العقد٬ وذالک للتاکد من جدیتہ فی التعامل...ویسمی فی العرف "ہامش الجدية" او "ضمان الجدية".... وانما ہی امانة بید البائع٬ تجری علیہ احکام الامانات. ولا یجوز لآخذہا ان یتمولہا لنفسہ٬ ولایجوز استثمارھا الا باذن مالکہا٬ بشرط ان یکون الربح لہ٬ وکذالک یجب رد ھذا المبلغ الیہ ان لم یتم انجاز العقد معہ......... ولا یجوز للموسسة حجز مبلغ ہامش الجدية فی حالة نکول العمیل عند تنفیذ وعد الملزم. وینحصر حقھا فی اقتطاع مقدار الضرر الفعلی المتحقق نتيجة النکول..."
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی