عنوان: "اس شخص کا وضو نہیں جس نے وضوکے شروع میں بسم اللہ نہیں پڑھی" روایت کا مطلب اور تشریح (7236-No)

سوال: حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس کا وضو نہیں اس کی نماز نہیں، اور جس نے «بسم اللہ» نہیں کہا، اس کا وضو نہیں ہوا۔(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ٣٩٨) کیا یہ حدیث صحیح ہے؟

جواب: سوال میں ذکر کردہ روایت ’’سنن ابن ماجۃ‘‘میں موجود ہے۔ذیل میں مکمل روایت سند،متن، ترجمہ اور تشریح کے ساتھ ذکر کی جاتی ہے:حدثنا الحسن بن علي الخلال قال: حدثنا يزيد بن هارون قال: أخبرنا يزيد بن عياض قال: حدثنا أبو ثفال، عن رباح بن عبد الرحمن بن أبي سفيان، أنه سمع جدته بنت سعيد بن زيد تذكر أنها سمعت أباها سعيد بن زيد، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا صلاة لمن لا وضوء له، ولا وضوء لمن لم يذكر اسم الله عليه»(باب ما جاء في التسمية في الوضوء،حدیث نمبر:398،ج:140/1،ط: دار إحياء الكتب العربية)
ترجمہ:
حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے راویت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اس شخص کی نماز نہیں ،جس کا وضو نہیں اور اس شخص کا وضو نہیں ، جس نے وضوکے شروع میں ‘‘بسم اللہ‘‘نہیں پڑھی ‘‘
تشریح:
واضح رہے کہ جمہور فقہاء کرام اور محدثین کرام کے نزدیک وضو سے پہلے ‘‘بسم اللہ‘‘ پڑھنا سنت ہے اور جس حدیث میں یہ آتا ہے کہ ’’اس شخص کی نماز نہیں ،جس کا وضو نہیں اور اس شخص کا وضو نہیں ، جس نے وضوکے شروع میں ‘‘بسم اللہ‘‘نہیں پڑھی ‘‘ ، اس حدیث کا مطلب یہ نہیں کہ ‘‘بسم اللہ‘‘ پڑھے بغیر وضو ہی صحیح نہیں ہوتا ہے ،بلکہ اس حدیث کا مطلب ہے کہ ‘‘بسم اللہ‘‘ پڑھے بغیر وضو کامل نہیں ہوتا ، ناقص ہوتا ہے ، کیونکہ حدیث کے الفاظ میں ‘‘لا‘‘ نفی کمال کے لیے ہے،نہ کہ نفی صحت کے لیے اور حدیث کے الفاظ میں ‘‘لا‘‘ نفی کمال کے لیےمراد لینے کی کئی وجوہات ہیں:
۱۔وضو سے متعلق بہت سے صحابہ کرام سے روایات مروی ہیں ،جن میں وضو سے متعلق تمام تر تفصیلات ہیں ،لیکن کسی روایت میں ‘‘بسم اللہ‘‘کا ذکر نہیں ہے، اگر ‘‘بسم اللہ‘‘ کا پڑھنا ضروری ہوتا تو سب ہی راوی اس کا تذکرہ کیوں چھوڑتے؟
۲۔امت میں عام طورپروضو سے پہلے ‘‘بسم اللہ‘‘کا معمول نہیں ہے،اگر ‘‘بسم اللہ‘‘پڑھنا ضروری ہوتا تو امت اس میں غفلت نہ کرتی۔
۳۔ وضوکے شروع میں ‘‘بسم اللہ‘‘پڑھنے کے واجب اور ضروری نہ ہونے پر گویا امت کا اجماع ہے،چند حضرات کے سواسب ہی وضوکے شروع میں ‘‘بسم اللہ‘‘پڑھنے کے واجب اور ضروری نہ ہونےکا انکار کرتے ہیں۔
۴۔ وضوکے شروع میں ‘‘بسم اللہ‘‘پڑھنےسے متعلق روایت تمام اسانید کے ساتھ ضعیف ہے،مذکورہ بالا روایت کا مدار‘‘رباح ابن عبدالرحمن پر ہے اور ان پر محدثین کرام نے کلام کیا ہے اور اسی طرح اس روایت کی سند میں‘‘أبو ثفال‘‘ راوی ہیں ،ا ن کے بارے میں امام بخاریؒ لکھتے ہیں : ’’وفی احادیثیہ نظر ‘‘یعنی ان کی احادیث تحقیق طلب ہیں ، اس لیے امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کرنے بعدامام احمد بن حنبل کا قول نقل کیا ہے:لااعلم فی ھذا الباب حدیثا لہ إسناد جید یعنی اس مسئلہ میں میرے علم ایسی کوئی حدیث نہیں ہے،جس کی سند عمدہ ہو۔
علامہ منذری ؒ فرماتے ہیں: اس مسئلہ میں کئی حدیثیں ہیں ،جن کی سند درست نہیں۔
شاہ ولی اللہ ؒ فرماتے ہیں :حدیث کا علم رکھنے والوں نے اس حدیث کی تصحیح پر اتفاق نہیں کیا ہے۔
۵۔حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے:من توضأ وذكر اسم الله تطهر جسده كله , ومن توضأ ولم يذكر اسم الله لم يتطهر إلا موضع الوضوء»(سنن دارقطنی،باب التسمية على الوضوء،حدیث نمبر:232،ج:124/1،ط:مؤسسۃ الرسالۃ)
ترجمہ:جس نے وضو کیا اور اللہ تعالی کا نام لیا اس کا پورا جسم پاک ہوگیا اورجس نےوضو کیا اور اللہ تعالی کا نام نہیں لیا ، اس کے صرف وضوکے اعضا ء ہی پاک ہوئے۔
اس روایت سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگر وضو کے شروع میں ‘‘بسم اللہ‘‘نہ پڑھی جائے تو بھی وضو درست اور معتبر ہوتا ہے۔
خلاصہ کلام :
وضوکے شروع میں ‘‘بسم اللہ‘‘پڑھنا سنت ہے ،البتہ فرض یا واجب نہیں ہے ،لہذا اگر کوئی "بسم اللہ‘‘ پڑھے بغیر وضو کرلے تو بہرحال وضو ہوجائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن الترمذی: (79/1، ط: دار الغرب الإسلامی)
حدثنا نصر بن علي، وبشر بن معاذ العقدي، قالا: حدثنا بشر بن المفضل، عن عبد الرحمن بن حرملة، عن أبي ثفال المري، عن رباح بن عبد الرحمن بن أبي سفيان بن حويطب، عن جدته، عن أبيها، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: لا وضوء لمن لم يذكر اسم الله عليه.
وفي الباب عن عائشة، وأبي سعيد، وأبي هريرة، وسهل بن سعد، وأنس.
قال أحمد بن حنبل: لا أعلم في هذا الباب حديثا له إسناد جيد.
وقال إسحاق: إن ترك التسمية عامدا أعاد الوضوء، وإن كان ناسيا أو متأولا أجزأه.
قال محمد: أحسن شيء في هذا الباب حديث رباح بن عبد الرحمن.و رباح بن عبد الرحمن، عن جدته، عن أبيها، وأبوها سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل.
وأبو ثفال المري اسمه ثمامة بن حصين. ورباح بن عبد الرحمن، هو أبو بكر بن حويطب. منهم من روى هذا الحديث، فقال: عن أبي بكر بن حويطب، فنسبه إلى جد۔

مرقاۃ المفاتیح: (409/2، ط: دار الفکر)
(قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا وضوء ": أي: كاملا " لمن لم يذكر اسم الله عليه " أي: على وضوئه. قال ابن حجر: ويفسره الحديث الصحيح: " «توضأوا باسم الله» " أي: قائلين ذلك. هذا وذهب بعضهم كأحمد بن حنبل إلى وجوبه عند ابتداء الوضوء تمسكا بظاهر الحديث. وقيل: إن تركه في ابتدائه بطل وضوءه، وقيل: إن تركه عامدا بطل وإن تركه ساهيا لا. وقال القاضي: هذه الصيغة حقيقة في نفي الشيء، ويطلق مجازا على نفي الاعتداد به لعدم صحته، كقوله عليه الصلاة والسلام: " «ولا صلاة إلا بطهور» " وعلى نفي كماله كقوله عليه الصلاة والسلام: " «لا صلاة لجار المسجد إلا في المسجد» ". وهاهنا محمولة على نفي الكمال خلافا لأهل الظاهر، لما روى ابن عمر وابن مسعود أنه صلى الله تعالى عليه قال: " «من توضأ وذكر اسم الله كان طهورا لجميع بدنه، ومن توضأ ولم يذكر اسم الله كان طهورا لأعضاء وضوئه» ". والمراد بالطهارة الطهارة عن الذنوب ; لأن الحدث لا يتجزأ. (رواه الترمذي، وابن ماجه) قال ميرك: ورجال الترمذي موثقون وكذا رجال ابن ماجه إلا يزيد بن عياض؛ فإنه قال فيه النسائي: متروك.

معارف السنن: (216/1- 217، ط: مجلس الدعوۃ و التحقیق الاسلامی)
التسمیۃ عند ابتداء الوضوء سنۃ عند أبی حنیفۃ، ومالک و الشافعی ، وسفیان الثوری ، وأبی عبید وابن المنذر، وفی أظھر الروایتین عن أحمد، وعند جمھور العلماء ، عامۃ أھل الفتوی ، واجبۃ عند إسحاق ، وفی روایۃ عند أحمد وھو مذھب الحسن ، وأختیارأبی بکر و مذھب داؤد الظاھری و أتباعہ۔۔۔۔و قال شیخنا :إنھالنفی الاصل حقیقۃ ، ولکنھا اطلقت ھنا و ھناک تنزیلا للناقص منزلۃ المعدوم علی منحی أھل البلاغۃ فی التعبیر، وھذا لیس بالمجاز،بل افاد المجاز من ھذا المنحی ، والوجوب ضعیف من حیث الدلیل، لأن حدیث الباب ضعیف، وقول أحمد مذکور فی الکتاب حیث قال : لاأعلم فی ھذا الباب حدیثالہ إسناد جید قال :أرجو أن یجزئہ الوضو من غیر التسمیۃ ، لأنہ لیس فی ھذا الباب حدیثا أحکم بہ الخ۔ قال المنذری : فی ھذا لباب أحادیث لیست أسانیدھا مستقیمۃ ، وبضد ذلک یدعی ابن أبی شیبۃ ، ثم ابن الصلاح، و ابن کثیر ، و ابن سید الناس ، و ابن الحجر ثبوتہ ۔ وعلی کل حال فھی لاتفید ماعدا السنیۃ و الإستحباب ، کما قالہ الجمھور وأیضا: فلم یثبت علیہ تعامل کثیر من السلف و أیضاً استمر المسلمون یحکون وضوء النبی ﷺ ، ویعلمون الناس ، ولایذکرون التسمیۃ ،کما یقولہ الشاہ ولی اللہ ،فثبت أن الأقوی أن تکون مستحبۃ أو سنۃ۔

فتاوی حقانیہ: (500/2، ط: دار العلوم حقانیہ)

درس ترمذی: (231/1، ط: مکتبۃ دار العلوم کراتشی)

تحفۃ الألمعی: (245/1، ط: زمزم ببلشرز)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1402 Apr 06, 2021
wozu kay shuru mai bismillah parhne say mutalliq riwayat ka matlab or tashreeh , The meaning and interpretation of the hadith about reciting "Bismillah" at the beginning of ablution

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.