سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! ہمارے علاقے میں ایک دکاندار ہے، جو بہت سالوں سے یہ کاروبار کر رہا ہے کہ لوگ اس کے پاس کمیٹی ڈالتے ہیں اور ہر مہینے قرعہ اندازی سے جس کا نام نکل آئے، وہ کمیٹی سے نکل جاتا ہے، یعنی پوری کمیٹی لے کر بقیہ قسط ادا نہیں کرتا ہے۔
ہر مہینے ایک آدمی کو کمیٹی، ایک کو موٹر سائیکل، اور 30 بندوں کو وال کلاک (گھڑیال) ملتے ہیں۔
کمیٹی خوش نصیب کے علاوہ باقی چیزوں کے خوش نصیب کمیٹی میں شامل رہینگے۔
یعنی 5 سال تک جب تک آپ کی کمیٹی نہیں نکلتی قسطیں دینی پڑینگی۔
5 سال میں کسی کا نام نہ آئے تو جمع شدہ رقم اس کو واپس کی جایئگی اور آخری دن بہت سارے انعامات(کار وغیرہ) نکلتے ہیں۔
درمیان میں کمیٹی چھوڑنے والے کو جمع شدہ رقم 5 سال بعد ملے گی اور اگر اسی وقت چاہیے تو % 50 فیصد کٹوتی ہوگی۔
معلوم یہ کرنا ہے کہ اس کے ساتھ کمیٹی ڈالنا کیسا ہے؟
جواب: کمیٹی ڈالنے کا مذکورہ بالا طریقہ کار شرعا جائز نہیں ہے٬ کیونکہ کمیٹی کی شرعی حیثیت قرض کی ہے٬ اور قرض پر مشروط طور پر نفع لینا سود ہے٬ مذکورہ صورت میں ہر مہینے قرعہ اندازی میں جس ممبر کا نام نکل آئے٬ وہ آئندہ مہینوں کی قسطیں جمع نہیںں کراتا٬ جبکہ وہ اپنی جمع شدہ رقم سے زیادہ رقم وصول کرچکا ہوتا ہے٬ اسی طرح اس کمیٹی میں مشروط طور پر انعامات بھی دیئے جاتے ہیں٬ یہ سود کی شکل ہے٬ نیز اس میں جوا (قمار) بھی پایا جاتا ہے٬ لہذا ان وجوہات کی بناء پر کمیٹی کی مذکورہ صورت ناجائز اور حرام ہے٬ اس سے اجتناب لازم ہے۔
کمیٹی کا جائز طریقہ یہ ہے کہ تمام ممبران کو باری باری اتنی رقم مل جائے، جتنی وہ جمع کراتے ہیں٬ اس میں کمی بیشی نہیں ہونی چاہیے٬ نیز جس کا نام نکل آئے٬ وہ اخیر تک باقی ساری رقم بھی جمع کرائے، جتنی کہ وہ لے چکا ہے٬ نیز اس میں کسی انعام کی شرط یا عرف بھی نہ ہو٬ تو ایسی کمیٹی ڈالنا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الآیة: 278- 279)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَo فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَo
صحیح مسلم: (227/2)
عن جابرؓ قال: لعن رسول اللّٰہ ﷺ اٰکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ ، وقال: ہم سواء.
إعلاء السنن: (501/4)
"عن فضالۃ ابن عبید رضي اللّٰہ عنہ صاحب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: کل قرض جر منفعۃ فہو وجہ من وجوہ من الربوا"
رد المحتار: (کتاب الحظر و الاباحۃ، 403/6، ط: دار الفکر)
(قوله: لأنه يصير قماراً)؛ لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی