سوال:
ہمارے علاقہ میں ایک شخص ہے جو علماءِ کرام کے بارے میں کہتا ہے کہ آج کے علماء اپنے علم پر عمل نہیں کرتے ہیں، لہذا یہ یہودی اور نصرانی ہیں، اسی طرح کے اور دوسرے الفاظ سے علماء کو برا بھلا کہتا ہے، ایسے شخص کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب: علماء انبیاءِ کرام علیہم السلام کے وارث ہیں، مسلمانوں پر ان کا ادب و احترام کرنا لازم ہے۔ اگر کوئی شخص بغیر کسی ظاہری سبب کے دل میں علماءِ کرام کا بغض رکھتا ہو تو فقہاءِ کرام نے ایسے شخص کے بارے میں کفر کا اندیشہ ظاہر کیا ہے، لہذا اگر کوئی شخص کسی عالم دین کی توہین کرتا ہے اور اس کا مذاق اڑاتا ہے یا برا بھلا کہتا ہے اور اس برا بھلا کہنے اور توہین کرنے کی وجہ صرف علم دین ہو، یعنی صرف علم دین حاصل کرنے کی وجہ سے عالم دین کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتا ہو تو ایسا شخص اپنے اس عمل کی وجہ سے دین اسلام سے خارج ہے، اس پر لازم ہے کہ فوراً توبہ و استغفار کرکے تجدید ایمان کرے اور اگر شادی شدہ ہے تو تجدید نکاح بھی کرے، البتہ اگر کوئی شخص کسی عالم دین سے دین کی بنیاد پر نہیں، بلکہ ذاتی رنجش یا کسی عالم دین کو گمراہی اور فسق میں مبتلا دیکھنے کی بنیاد پر اس کو گالی دے تو اس کا یہ عمل اگرچہ کفر نہیں ہے، لیکن فسق و فجور کا باعث ضرور ہے۔
لہذا سوال میں پوچھی گئی صورت میں اگر مذکورہ الفاظ کہنے والا صرف علم دین کی وجہ سے علماءِ کرام کا بغض رکھتا ہو اور انہیں حقیر سمجھتے ہوئے ان کے بارے میں مذکورہ الفاظ استعمال کرتا ہےتو اس سےوہ دائرہ اسلام سے خارج ہوگیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
شرح الفقه الاکبر: (ص: 173)
وفی الخلاصة من ابغض عالما من غیر سبب ظاھر خیف علیه الکفر ... قلت :الظاھر انه یکفر لانه اذا ابغض العالم من غیر سبب دنیوی او اخروی فیکون بغضه لعلم الشریعة ولاشک فی کفر من انکرہ فضلا عمن ابغضه.
رد المحتار: (72/4، ط: دار الفکر)
ذکر فی شرحه علی الملتقی ایضا انه علی وجه المزاح یعزر فلو بطریق الحقارۃ کفر لان اھانة اھل العلم کفر علی المختار۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی