سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب!
ایک شخص تیسری طلاق دینے کے بعد کہتا ہے کہ میری نیت تیسری طلاق دیتے وقت صرف تنبیہ تھی اور میں نے لفظ طلاق نہیں، بلکہ تلاق ت کے ساتھ کہا تھا، جبکہ پہلی دو تو کنفرم کر رہا ہے اور جھوٹ بولنا اس کیلئے عام سی بات ہے، تو کیا اس کے لفظ کا اعتبار کیا جائے گا اور دو ہی طلاق ہونگی؟
بیوی کو کہا تھا کہ تم ماں باپ کے گھر جانے کیلئے سیڑھیاں اترو گی تو تیسرا لڈو (طلاق.) بھی دے دوں گا اور یہ سیڑھیاں اترتے ہی بولا۔
کیا تین طلاق واقع ہوگئی ہیں؟
جواب: یاد رہے کہ "لفط تلاق" کہنے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے، اس لئے مذکورہ شخص کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الآیۃ: 230)
فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ، فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یَّتَرَاجَعَاۤ اِنْ ظَنَّاۤ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ، وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ یُبَیِّنُهَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَo
الدر المختار مع رد المحتار: (249/3، ط: سعید)
باب الصریح: صریحہ ما کم یستعمل الا فیہ۔۔۔۔۔۔و یدخل نحو طلاغ، و تلاغ و طلاک تلاک او "ط ل ق" او "طلاق باش" بلا فرق بین عالم و جاھل، و ان قال: تعمدتہ تخویفا، لم یصدق قضاء، الا إذا اشھد علیہ قبلہ، بہ یفتی۔
قال فی البحر؛ و منہ الالفاظ المصحفۃ، و ھی خمسۃ فزاد علی ماھنا "تلاق"۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی