عنوان: صاحب نصاب ہوجانے کے بعد قابلِ زکوۃ اثاثوں میں سے ہر ایک پر علیحدہ علیحدہ سال گزرنے کا شرعی حکم(7286-No)

سوال: مفتی صاحب! اگر کوئی رقم سال کے درمیان میں آئی ہو، اور اس پر سال نہ گزرا ہو، اور یہ پہلے سے نصاب کا مالک ہو، تو درمیانِ سال آنے والی رقم پر زکوۃ واجب ہوگی یا نہیں؟

جواب: واضح رہے کہ ایک مرتبہ نصاب زکوٰۃ کا مالک بن جانے کے بعد مال کے ہر ہر حصے پر علیحدہ علیحدہ مکمل سال گزرنا ضروری نہیں ہے، لہذا جب کوئی شخص نصاب زکوٰۃ کا مالک بن گیا تو سال مکمل ہونے کے بعد ،اس کی ملکیت میں موجود تمام قابلِ زکوٰۃ اثاثوں کا حساب کیا جائے گا، اگر وہ نصاب  کے برابر یا زیادہ ہوں تو زکوٰۃ لازم ہوگی،  درمیان سال میں آنے والی ہر ہر رقم پر علیحدہ علیحدہ سال گزرنا ضروری نہیں  ہے۔
اس تفصیل کی روشنی میں صورت مسئولہ کا حکم یہ ہے کہ چونکہ آپ نصاب زکوۃ کے مالک ہیں، اور رمضان المبارک کے مہینے میں آپ کے مال پر سال بھی مکمل گزر گیا ہے، تو آپ پر آپ کی ملکیت میں موجود تمام قابل زکوۃ اثاثوں (بشمول گھر خریدنے کے لیے رکھی گئی رقم) کی زکوۃ نکالنا واجب ہے، اس رقم پر علیحدہ سے سال گزرنا شرط نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار: (302/2، ط: دار الفکر)
(وشرط كمال النصاب) ولو سائمة (في طرفي الحول) في الابتداء للانعقاد وفي الانتهاء للوجوب (فلا يضر نقصانه بينهما) فلو هلك كله بطل الحول.

البحر الرائق: (247/2، ط: دار الكتاب الاسلامی)
(قوله ونقصان النصاب في الحول لا يضر إن كمل في طرفيه) ؛ لأنه يشق اعتبار الكمال في أثنائه إما لا بد منه في ابتدائه للانعقاد وتحقيق الغناء، وفي انتهائه للوجوب.

بدائع الصنائع: (19/2، ط: دار الکتب العلمیۃ)
فأما إذا كان له الصنفان جميعا فإن لم يكن كل واحد منهما نصابا بأن كان له عشرة مثاقيل ومائة درهم فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب۔۔۔ (ولنا) ما روي عن بكير بن عبد الله بن الأشج أنه قال: مضت السنة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم بضم الذهب إلى الفضة والفضة إلى الذهب في إخراج الزكاة ؛ ولأنهما مالان متحدان في المعنى الذي تعلق به وجوب الزكاة فيهما وهو الإعداد للتجارة بأصل الخلقة والثمنية، فكانا في حكم الزكاة كجنس واحد ؛ ولهذا اتفق الواجب فيهما وهو ربع العشر على كل حال وإنما يتفق الواجب عند اتحاد المال.
وأما عند الاختلاف فيختلف الواجب وإذا اتحد المالان معنىً فلايعتبر اختلاف الصورة كعروض التجارة، ولهذا يكمل نصاب كل واحد منهما بعروض التجارة ولايعتبر اختلاف الصورة، كما إذا كان له أقل من عشرين مثقالاً وأقل من مائتي درهم وله عروض للتجارة ونقد البلد في الدراهم والدنانير سواء، فإن شاء كمل به نصاب الذهب وإن شاء كمل به نصاب الفضة، وصار كالسود مع البيض، بخلاف السوائم؛ لأن الحكم هناك متعلق بالصورة والمعنى وهما مختلفان صورة ومعنى فتعذر تكميل نصاب أحدهما بالآخر"۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 375 Apr 16, 2021
saahib e nisab hojanay kay baad qaabil e zakat asaason mai say har aik par alahida alahida saal guzarne ka shar'ee hukum, Sharia ruling / order to spend a complete year separately on each of the assets which are eligible / obligatory for Zakat after becoming a Sahib Nisab.

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Zakat-o-Sadqat

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.