سوال:
مولوی صاحب! اگر معذور شخص عصر کا وقت داخل ہونے سے دس منٹ پہلے وضو کرلے، تو کیا عصر کا وقت داخل ہونے کے بعد اس وضو سے نماز پڑھ سکتا ہے یا ازسرِنو نیا وضو کرنا ہوگا؟
جواب: شریعت نے جس شخص کو معذور قرار دیا ہے، اس کے وضو سے متعلق کافی آسانی پیدا کی ہیں، وہ یہ کہ کسی بھی نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد وہ وضو کرے تو یہ وضو اس نماز کے وقت ختم ہونے تک برقرار رہتا ہے، چاہے اس دوران اس عذر سے وضو ٹوٹتا رہے اور اس وضو سے معذور شخص فرض، واجب، سنت، نفل اور قرآن مجید کی تلاوت سب ادا کرسکتا ہے، جیسے ہی اس نماز کا وقت خارج ہوگا تو اس کا وضو خودبخود ٹوٹ جائے گا،خواہ اس نے وقت خارج ہونے سے ایک لمحہ پہلے ہی وضو کیوں نہ کیا ہو، لہٰذا اس کو اگلی نماز کے لیے نیا وضو کرنا پڑے گا، مثلاً: مغرب کی نماز کےلیے وضو کیا تو یہ وضو مغرب کے آخری وقت تک برقرار رہے گا، جب مغرب کاوقت ختم ہوگا تو یہ وضو عشاء کی نماز کے لیے کارآمد نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (27/1، ط: دار الکتب العلمیة)
(وأما) أصحاب الأعذار كالمستحاضة، وصاحب الجرح السائل، والمبطون ومن به سلس البول، ومن به رعاف دائم أو ريح، ونحو ذلك ممن لا يمضي عليه وقت صلاة إلا، ويوجد ما ابتلي به من الحدث فيه فخروج النجس من هؤلاء لا يكون حدثا في الحال ما دام وقت الصلاة قائما، حتى أن المستحاضة لو توضأت في أول الوقت فلها أن تصلي ما شاءت من الفرائض، والنوافل ما لم يخرج الوقت، وإن دام السيلان
الھندیۃ: (41/1، ط: دار الفکر)
المستحاضة ومن به سلس البول أو استطلاق البطن أو انفلات الريح أو رعاف دائم أو جرح لا يرقأ يتوضئون لوقت كل صلاة ويصلون بذلك الوضوء في الوقت ما شاءوا من الفرائض والنوافل هكذا في البحر الرائق۔۔۔۔ويبطل الوضوء عند خروج وقت المفروضة بالحدث السابق. هكذا في الهداية وهو الصحيح.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی