عنوان: "فجر کی دو ہی رکعتیں ہیں" حدیث کی تشریح(7307-No)

سوال: ابوداؤد شریف کی اس حدیث کی وضاحت فرمادیں: "حضرت محمد بن ابراہیمؒ قیس بن عمروؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے ایک آدمی کو نماز فجر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے ہوئے دیکھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نماز فجر دو رکعت ہے۔ اس آدمی نے عرض کیا: میں نے ان سے پہلے کی دو رکعتیں نہیں پڑھی تھیں، میں نے انہیں اب پڑھا ہے تو رسول اللہ ﷺ خاموش ہو گئے۔ (ابوداؤد)

جواب: سوال میں ذکرکردہ روایت سنن أبی داؤد، سنن ترمذی، سنن ابن ماجہ اور احادیث کی دیگر کتب میں الفاظ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ موجود ہے، ذیل میں سنن أبی داؤد سے مکمل روایت، سند، متن، ترجمہ اور تشریح کے ساتھ ذکرکی جاتی ہے۔
حدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا ابن نمير، عن سعد بن سعيد، حدثني محمد بن إبراهيم، عن قيس بن عمرو، قال: رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا يصلي بعد ركعتين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «صلاة الصبح ركعتان»، فقال الرجل: إني لم أكن صليت الركعتين اللتين قبلهما، فصليتهما الآن، فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم۔
(حدیث نمبر:1267، 22/2، ط: المکتبۃ العصریۃ)
ترجمہ:
حضرت قیس بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو فجر کی نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھتے ہوئے دیکھا۔ آپ صلی الله عليه وسلم نے فرمایا: فجر کی دو ہی رکعتیں ہیں۔ اس آدمی نے عرض کیا : میں نے ان سے پہلے کی دو رکعتیں نہیں پڑھی تھیں ، میں نے انہیں اب پڑھا ہے ، تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش ہو گئے۔
تشریح:
اگر کسی شخص نے فجر کی سنتیں نہ پڑھی ہوں، تو کیا وہ فرض ادا کرنے کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے ان کو پڑھ سکتا ہے؟
شوافع اور حنابلہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے فجر کی سنتیں نہ پڑھی ہوں، تو وہ ان کو فرض کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے پڑھ سکتا ہے۔
واضح رہے کہ سنن ترمذی کی روایت میں الفاظ‘‘فلا إذن» ‘‘ ،سنن ابن ماجہ میں الفاظ ‘‘فسكت النبي صلى الله عليه وسلم ‘‘مصنف ابن ابی شیبۃ میں الفاظ’’ فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فلم يأمره ، ولم ينهه ‘‘ اور مصنف عبدالرزاق میں ’’ فسكت النبي صلى الله عليه وسلم ومضى ولم يقل شيئا‘‘الفاظ ہیں ۔

حضرات شوافع اور حنابلہ حدیث کےتمام الفاظ سے استدلال کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے حضرت قیس ؓ کے عذر کو قبول فرما لیا تھا، لہذا فرض کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلےسنتیں پڑھ سکتےہیں۔
احناف اور مالکیہ کا مسلک:
احناف اور مالکیہ فرماتے ہیں کہ فجر کے فرض کے بعد سورج نکلنے سے پہلے سنتیں پڑھنا جائز نہیں ہے، اگرسنتیں رہ جائیں، تو سورج طلوع ہونے کا انتظار کرناچاہیے اور اس کے بعد سنتیں پڑھنی چاہئیں۔
احناف اور مالکیہ کے دلائل:
احناف اور مالکیہ ان تمام احادیث سے استدلال کرتے ہیں، جن میں فجر کے بعد نماز کی ممانعت کی گئی ہے، اور وہ احادیث معناََ متواتر ہیں، جن میں سے چنداحادیث پیش کی جاتی ہیں:
۱۔عن ابی ھریرۃ ان رسول اللہ ﷺ نھی عن بیعتین وعن لبستین وعن صلاتین نھی عن الصلاۃ بعد الفجر حتی تطلع الشمس وبعد العصر حتی تغرب الشمس۔
( صحیح البخاری ،باب الصلاۃ بعد الفجر حتی ترتفع الشمس،حدیث نمبر:584، 120/1،ط:دارطوق النجاۃ)
ترجمہ:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے دو قسم کی خرید و فروخت سے اور دوقسم کے کپڑوں سے اور دو نمازوں سے منع فرمایا ہے، آپ علیہ السلام نے فجر کے بعد سورج کے طلوع ہونے تک اور عصر کے بعد سورج کے غروب ہونے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔
۲۔عن ابی سعید الخدری یقول سمعت رسول اللہ ﷺ یقول لا صلوٰۃ بعد الصبح حتیٰ ترتفع الشمس ولا صلوٰۃ بعد العصر حتی تغیب الشمس۔
(صحیح البخاری ،باب لا تتحری الصلوۃ قبل غروب الشمس، حدیث نمبر: 586 ، 121/1 ،ط:دارطوق النجاۃ)
ترجمہ:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اکرمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ صبح کی نماز کے بعد سورج کے بلند ہونے تک اور عصر کی نماز کے بعد سورج کے غروب ہونے تک کوئی نماز جائز نہیں۔

فائدہ:
یہ حدیث متواتر ہے اور تقریباً بیس صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علھیم اجمعین سے مروی ہے۔
۳۔عن ابن عباس قال سمعت غیر واحد من اصحاب رسول اللہ ﷺ منھم عمر ابن الخطاب وکان احبھم الی ان رسول اللہﷺ نھی عن الصلاۃ بعد الفجر حتی تطلع الشمس وبعد العصر حتی تغرب الشمس.
(صحیح مسلم ،باب الاوقات التی نھی عن الصلاۃ فیھا، حدیث نمبر:286، 566/1،ط:دارإحیاء التراث العربی)
ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے کئی صحابہ سے سنا، ان میں سے ایک حضرت عمر ابن خطاب بھی ہیں اور وہ مجھے صحابہ میں سب سے زیادہ محبوب تھے، رسول اکرم ﷺ نے فجر کے بعد سورج کے طلوع ہونے تک اور عصر کے بعد سورج کے غروب ہونے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔
۴۔عن ابی ھریرۃ قال : قال رسول اللہ ﷺمن لم یصل رکعتی الفجر فلیصلھما بعد ما تطلع الشمس۔
(سنن ترمذی ، باب ما جاء في إعادتهما بعد طلوع الشمس، حدیث نمبر:423، 548/1،ط:دارالغرب الاسلامی)
ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: جس آدمی نے فجر کی دو رکعتیں نہیں پڑھیں، اس کو چاہیے کہ سورج کے طلوع ہونے کے بعد ان کو پڑھے۔
۵۔ عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: " كان النبي عليه السلام إذا فاتته ركعتا الفجر، صلاهما إذا طلعت الشمس " فهذا الحديث أحسن إسنادا وأولى بالاستعمال مما قد رويناه قبله في هذا الباب
( شرح مشکل الآثار للطحاوی ،حدیث نمبر:4142، 328/10،ط: مؤسسة الرسالة)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب نبی کریم ﷺ سے جب فجر کی دو رکعتیں فوت ہوجاتیں، تو آپ علیہ السلام انہیں سورج کے طلوع ہونے کے بعد پڑھتے تھے۔
امام طحاوی رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
فھذا الحدیث احسن اسنادا واولی بالاستعمال مما قد رویناہ قبلہ فی ھذا الباب.
یہ حدیث سب سے احسن سند والی ہے اور اس باب میں ہم نے اس سے پہلے جتنی روایات ذکر کی ہیں، ان میں استعمال کے اعتبار سے اولیٰ ہے۔
شوافع کی دلیل کا جواب:
۱۔امام ترمذی ؒنے اس حدیث کی سندپر کلام کرتے ہوئے فرمایا:’’ وإسناد هذا الحديث ليس بمتصل محمد بن إبراهيم التيمي لم يسمع من قيس. ‘‘ یعنی اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے، کیونکہ محمدبن ابرہیم تیمی کا قیس سے سماع ثابت نہیں ہے۔
۲۔ فجر کے بعد سورج کے طلوع ہونے تک نماز سے منع کرنے پر کئی احادیث موجود ہیں، جس کی بناء پر جناب رسول اللہﷺ کے سکوت (خاموشی)کو عذر قبول کرنے پر محمول نہیں کیا جاسکتا ہے۔
۳۔سنن ترمذی کی روایت میں ‘‘فلا إذن» ‘‘کے الفاظ ہیں، جس کا معنی ‘‘فلاتصل اذن‘‘(پھر اس وقت میں نہ پڑھو)ہے اور اس معنی کو مراد لینے پر عرب کے محاورات اور دیگر احادیث بھی دلالت کرتی ہیں۔
۴۔یہ بھی احتمال ہے کہ جن احادیث میں فجر کے بعد سورج کے طلوع ہونے تک نماز سے منع کیا گیا ہے، ان احادیث سے یہ واقعہ پہلے کا ہو۔
۵۔یہ بھی احتمال ہے کہ یہ واقعہ صحابی کی خصوصیت ہو اور عمومی حکم وہی ہے، جو دوسری احادیث میں بیان کیا گیا ہے۔
خلاصہ کلام:
اس ساری تفصیل سے یہ بات ثابت ہوئی کہ فجر کے فرض کے بعد سورج نکلنے سے پہلے سنتیں پڑھنا جائز نہیں ہے، اگر سنتیں رہ جائیں، تو سورج طلوع ہونے کا انتظار کرناچاہیے اور اس کے بعد سنتیں پڑھنی چاہئیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 422، 546/1، ط: دار الغرب الإسلامی)
حدثنا محمد بن عمرو السواق، قال: حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن سعد بن سعيد، عن محمد بن إبراهيم، عن جده قيس قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأقيمت الصلاة، فصليت معه الصبح، ثم انصرف النبي صلى الله عليه وسلم فوجدني أصلي، فقال: مهلا يا قيس، أصلاتان معا، قلت: يا رسول الله، إني لم أكن ركعت ركعتي الفجر، قال: فلا إذن.
حديث محمد بن إبراهيم، لا نعرفه مثل هذا إلا من حديث سعد بن سعيد.وقال سفيان بن عيينة: سمع عطاء بن أبي رباح، من سعد بن سعيد هذا الحديث.وإنما يروى هذا الحديث مرسلا. وقد قال قوم من أهل مكة بهذا الحديث، لم يروا بأسا أن يصلي الرجل الركعتين بعد المكتوبة قبل أن تطلع الشمس.
وسعد بن سعيد هو أخو يحيى بن سعيد الأنصاري.
وقيس هو جد يحيى بن سعيد الأنصاري، ويقال: هو قيس بن عمرو، ويقال: ابن قهد.
وإسناد هذا الحديث ليس بمتصل محمد بن إبراهيم التيمي لم يسمع من قيس.
وروى بعضهم هذا الحديث عن سعد بن سعيد، عن محمد بن إبراهيم، أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج فرأى قيسا.
وهذا أصح من حديث عبد العزيز، عن سعد بن سعيد.

سنن ابن ماجۃ: (رقم الحدیث: 1154، 365/1، ط: دار إحياء الكتب العربية)
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة قال: حدثنا عبد الله بن نمير قال: حدثنا سعد بن سعيد قال: حدثني محمد بن إبراهيم، عن قيس بن عمرو، قال: رأى النبي صلى الله عليه وسلم رجلا يصلي بعد صلاة الصبح ركعتين، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «أصلاة الصبح مرتين؟» فقال له الرجل: إني لم أكن صليت الركعتين اللتين قبلها، فصليتهما. قال: فسكت النبي صلى الله عليه وسلم

مصنف ابن ابی شیبۃ: (رقم الحدیث: 6502، 402/4، ط: دار القبلة)
حدثنا هشيم , قال : أخبرنا عبد الملك ، عن عطاء ؛ أن رجلا صلى مع النبي صلى الله عليه وسلم صلاة الصبح ، فلما قضى النبي صلى الله عليه وسلم الصلاة ، قام الرجل فصلى ركعتين ، فقال النبي صلى الله عليه وسلم : ما هاتان الركعتان ؟ فقال : يا رسول الله ، جئت وأنت في الصلاة ، ولم أكن صليت الركعتين قبل الفجر ، فكرهت أن أصليهما وأنت تصلي ، فلما قضيت الصلاة ، قمت فصليت الصلاة ، فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فلم يأمره ، ولم ينهه

مصنف عبد الرزاق: (رقم الحدیث: 4016، 442/2، ط: المجلس العلمي)
عن ابن جريج قال: سمعت عبد ربه بن سعيد، أخو يحيى بن سعيد يحدث عن جده قال: خرج إلى الصبح، فدخل النبي صلى الله عليه وسلم في الصبح، ولم يكن ركع ركعتي الفجر، فصلى مع النبي صلى الله عليه وسلم، ثم قام حين فرغ من الصبح، فركع ركعتي الفجر، فمر به النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: «ما هذه الصلاة؟» فأخبره، فسكت النبي صلى الله عليه وسلم ومضى ولم يقل شيئا

بذل المجہود: (481/5، ط: دار البشائر الاسلامیۃ)
قال ابن الملك: سكوته يدل على قضاء سنة الصبح بعد فرضه لمن لم يصلها قبله، وبه قال الشافعي، قلت؟ وسيأتي أن الحديث لم يثبت، فلا يكون حجة على أبي حنيفة قالہ القاری
قلت :امااولاً:فان الترمذی قال: ’’ وإسناد هذا الحديث ليس بمتصل محمد بن إبراهيم التيمي لم يسمع من قيس بن عمرو۔
ثانیا:ًلما ثبت نھی رسول اللہ ﷺ عن الصلاۃ بعد الصبح حتی تطلع الشمس ،فسکوتہ علیہ السلام لایحمل علی التقریر۔
وأماثالثاً:فیحتمل أن تکون ھذہ الواقعۃ قبل النھی ثم نھی عنھا و فی روایۃ الترمذی فی محل قولہ :’’فسکت‘‘لفظ ’’فلاإذاً‘‘

معارف السنن: (96/4-100، ط: مجلس الدعوۃ و التحقیق الإسلامی)
ثم لفظ ’’اذن‘‘۔۔۔۔و اختلف الحنفیۃ ولشافعیۃ فی مرادہ ،فقال الحنفیۃ :معناہ فلاتصل إذن،وإن لم تصلھمافکان قولہ ﷺ للإنکار۔۔۔ثم إن استعمال قولہ :‘‘فلاإذن‘‘للإنکار،کچیر منھا مافی ‘‘صحیح مسلم ‘‘(۲۔۳۷)(باب كراهة تفضيل بعض الأولاد في الهبة)من حدیث النعمان بن بشير، قال: انطلق بي أبي يحملني إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، اشهد أني قد نحلت النعمان كذا وكذا من مالي، فقال: «أكل بنيك قد نحلت مثل ما نحلت النعمان؟» قال: لا، قال: «فأشهد على هذا غيري»، ثم قال: «أيسرك أن يكونوا إليك في البر سواء؟» قال: بلى، قال: «فلا إذن»
قال الشیخ : ومنھا مافی ‘‘معجم الصحابۃ‘‘للبغوی: استعمال ھذہ الکلمۃ للإنکار۔أقول :لم أقف علیہ۔
أقول : ولھا نظائر أخر وإن کان بعضھاغیر صریح فی الإنکار۔۔۔۔۔ولنا فی عدم أدائھما بعد صلاۃ الصبح حدیث : لا صلوٰۃ بعد الصبح حتیٰ ترتفع الشمس ولا صلوٰۃ بعد العصر حتی تغیب الشمس‘‘من حدیث أبی سعیدالخدری ، واللفظ للبخاری فی (باب لاتتحری الصلاۃ قبل غروب الشمس)و بمعناہ منحدیث ابن عمر عندھما ۔
قال الشیخ:وقال بعضھم :إن الحدیث ھذا متواتر رواہ نحو عشرین رجلاًمن الصحابۃ ۔

درس ترمذی: (190/2، ط: مکتبۃ دار العلوم کراتشی)

تحفۃ الالمعی: (269/2، ط: زمزم ببلشرز)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1059 Apr 20, 2021
agar fajar ki sunnatain na parhi hon to un ko kab parha jaaye ? is say mutalliq hadees ki tasreeh , If the Fajr Sunnahs are not performed, then when should it be performed? Interpretation of the hadith related to this

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.