سوال:
ہمارے والد صاحب کا انتقال ہو چُکا ہے، انہوں نے وراثت میں جو مال چھوڑا ہے، وہ رقم کی صورت میں فی الحال 20,00,000 بیس لاکھ روپے موجود ہیں، جس میں سے 5,00,000 پانچ لاکھ روپے رقم کیش کی صورت میں ابھی موجود ہیں اور 15,00,000 پندرہ لاکھ روپے بینک میں موجود ہیں، جو سکسیشن سرٹیفکیٹ بننے کے بعد ہی نکال سکیں گے، ہمارے والد صاحب کے وارثین میں 3 بیٹے، 1 بیٹی اور 1 بیوی ہیں۔
شریعت کے مطابق تمام وارثین کو کتنی رقم ادا کری جائیگی؟ تفصیل کے ساتھ تحریر فرمادیں۔
تمام وارثین زکوٰة رمضان کے مہینے میں ہی ادا کرتے ہیں، کیا اس رقم کی بھی زکوٰة اسی رمضان میں ہی ادا کرنی ضروری ہے یا نہیں؟ اور کتنی کتنی زکوٰة تمام وارثین کو ادا کرنی ہوگی، جب کہ تمام رقم ابھی تمام وارثین کو ادا نہیں کری گئی ہے اور کچھ رقم ابھی بینک سے بھی نہیں نکالی جا سکتی ہے، جو سکسیشن سرٹیفکیٹ کے بعد ہی نکالی جا سکتی ہے۔
جواب: (1) مرحوم کی تجہیز و تکفین، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی کے لیے جائز وصیت کی ہو، تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد کو آٹھ (8) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے بیوہ کو ایک (1)، ہر ایک بیٹے کو دو (2)، اور بیٹی کو ایک (1) حصہ ملے گا۔
اس تقسیم کی رو سے بیس لاکھ (2000000) میں سے بیوہ کو دو لاکھ پچاس ہزار (250000)، ہر ایک بیٹے کو پانچ لاکھ (500000) اور بیٹی کو دو لاکھ پچاس ہزار (250000) روپے ملیں گے۔
(2) واضح رہے کہ میراث تقسیم ہونے سے پہلے میراث کے مال میں زکوة واجب نہیں ہوتی، لہذا جب تک میراث ورثاء میں تقسیم نہیں ہوگی، تب تک اس پر زکوة واجب نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الآیۃ: 11- 12)
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ....الخ
فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ....الخ
بدائع الصنائع: (10/2، ط: دار الکتب العلمیۃ)
"وَوُجُوبُ الزَّكَاةِ وَظِيفَةُ الْمِلْكِ الْمُطْلَقِ، وَعَلَى هَذَا يُخَرَّجُ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ فِي الدَّيْنِ الَّذِي وَجَبَ لِلْإِنْسَانِ لَا بَدَلًا عَنْ شَيْءٍ رَأْسًا كَالْمِيرَاثِ بِالدَّيْنِ وَالْوَصِيَّةِ بِالدِّينِ، أَوْ وَجَبَ بَدَلًا عَمَّا لَيْسَ بِمَالٍ أَصْلًا كَالْمَهْرِ لِلْمَرْأَةِ عَلَى الزَّوْجِ، وَبَدَلِ الْخُلْعِ لِلزَّوْجِ عَلَى الْمَرْأَةِ، وَالصُّلْحِ عَنْ دَمِ الْعَمْدِ أَنَّهُ لَا تَجِبُ الزَّكَاةُ فِيهِ".
و فیہ ایضاً: (فصل الشرائط التي ترجع إلى المال، 9/2، ط: دار الفکر)
وأما الشرائط التي ترجع إلى المال فمنها: الملك۔۔۔ومنها الملك المطلق وهو أن يكون مملوكا له رقبة ويدا وهذا قول أصحابنا الثلاثة
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی