سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی سے 10 لاکھ روپے بطور کاروبار کے قرضہ لے اور ابتداء سے یہ طے کرے کہ ایک لاکھ نفع کے ساتھ واپس کروں گا یا طے کرے کہ 10 لاکھ کے مال میں 10 فیصد نفع کے ساتھ پیسے واپس کروں گا۔ کیا یہ صورت جائز ہے یا نہیں، اگر جائز ہے تو نقصان میں کیسے شریک کیا جائے گا؟
جواب: صورت مسئولہ میں چونکہ رقم دینے والے نے یہ رقم قرض پر دی ہے، اور قرض پر نفع لینا سود ہے٬ جو کہ ناجائز اور حرام ہے٬ لہذا مذکورہ صورت میں قرض کی اصل رقم ہی واپس لینا ضروری ہے٬ اس پر اضافی رقم دینا اور قرض دینے والے کیلئے اسے وصول کرنا، یہ سودی عمل ہے، جو کہ ناجائز اور حرام ہے٬ اس سے بچنا ضروری ہے٬ نیز سودی معاملہ کرنے پر صدق دل سے توبہ واستغفار کرنا بھی لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الآیۃ: 278)
یا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَo
السنن الکبری للبیہقي: (باب کل قرض جر منفعۃ فہو ربا، رقم الحدیث: 11092)
عن فضالۃ بن عبید صاحب النبي صلی اﷲ علیہ وسلم أنہ قال: کل قرض جر منفعۃ فہو وجہ من وجوہ الربا۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی