سوال:
مفتی صاحب ! ایک شخص نے اپنے کسی کام کے ہونے پر اعتکاف کی منت مانی، اب اسکا کام ہوگیا، اس نے اس رمضان میں اعتکاف شروع کردیا تو کیا اس کا اعتکاف درست ہے اور کیا اس کو رمضان کے بعد الگ سے روزے بھی رکھنے ہونگے؟
جواب: واضح رہے کہ اگر کسی نے رمضان میں اعتکاف کی منت مانی، تو اس کو رمضان کے روزوں کے ساتھ ادا کیا جاسکتا ہے اور اگر رمضان کے علاوہ کسی اور مہینے میں اعتکاف کی منت مانی ہو، یا مطلقا اعتکاف کی منت ہو٫ تو اس کے لئے مستقل روزے رکھ کر اعتکاف کرنا ضروری ہے، رمضان کے روزے کافی نہیں ہونگے، لہذا صورت مسئولہ میں جب مطلق اعتکاف کی منت مانی ہے، تو رمضان کے علاوہ الگ سے روزے رکھ کر اعتکاف کرنا واجب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (190/1، ط: دار الکتب العلمیۃ)
لو أوجب على نفسه اعتكاف شعبان فلم يعتكف حتى دخل رمضان فاعتكف لا ينوب ذلك عما وجب عليه من الصوم الذي هو شرط صحة الاعتكاف؛ لأن ذلك صار دينا عليه حقا لله تعالى بمضي الوقت، والدين يؤدى بما هو له لمن هو عليه لا بما عليه فكذا هذا.
المحیط البرھانی: (409/2، ط: دار الكتب العلمية)
كما وجب الاعتكاف ديناً في الذمة وجب الصوم لأجل الاعتكاف ديناً، وكل صوم وجب ديناً في الذمة لا يتأدى بصوم رمضان.
الفتاوی الھندیۃ: (211/1، ط: دار الفکر)
لو نذر اعتكاف شهر ثم اعتكف رمضان لا يجزيه.
احسن الفتاوی: (515/4، ط: سعید)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی