سوال:
محترم مفتی صاحب !
جس فلیٹ میں ہم رہائش پذیر ہیں، اسکا مالک سودی کاروبار (لوگوں کو سود پر پیسہ دیتا ہے) کرتا ہے اور اسی بلڈنگ میں رہائش پذیر بھی ہے تو کیا بطور کرایہ دار اس فلیٹ میں رہنا جائز ہے؟ کیا اُسکے اس عمل کی وجہ سے ہماری عبادت میں اثر پڑےگا؟
جواب: صورت مذکورہ میں ممکن ہے کہ یہ مکان اس نے حلال مال سے یا غالب حلال کمائی سے بنایا ہو، لہذا آپ کے ذمہ کسی مومن کے بارے میں اچھا گمان رکھنا ضروری ہے اور کسی مسلمان کے بارے میں بلاوجہ تحقیق و تجسس اور تفتیش میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے، لہذا آپ کے لئے اس مکان میں کرائے پر رہنے کی گنجائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (الحجرات، الایة: 12)
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیۡمٌo
مؤطا الإمام مالک: (1333/5، ط: مؤسسۃ زاید بن سلطان)
مالك، عن أبي الزناد عن الأعرج، عن أبي هريرة؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إياكم والظن. فإن الظن أكذب الحديث.
ولا تحسسوا، ولا تجسسوا، ولا تنافسوا، ولا تحاسدوا، ولا تباغضوا، ولا تدابروا، وكونوا عباد الله إخوانا».
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی