سوال:
مفتی صاحب! ایک آدمی کی تنخواہ بیس ہزار ہے، اس کے علاوہ اس ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے انویسٹ کیے ہوئے ہیں، جس سے ماہانہ دس ہزار منافع آتا ہے، چھ بچے ہیں، مشکل سے خرچہ پورا ہوتا ہے، بیوی کے پاس تین تولے سے کم سونا ہے، تو کیا اس کو یا اس کی بیوی کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟
جواب: صورت مسئولہ میں مذکورہ آدمی چونکہ صاحب نصاب ہے، اس لئے اسکو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے، جبکہ اس کی بیوی کے پاس اگر صرف تین تولے سونا ہے، اور کوئی رقم، چاندی یا ضرورت سے زائد سامان نہیں ہے، تو اس کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے، اور اگر اس کے پاس تین تولے سونے کے علاوہ رقم، چاندی یا ضرورت سے زائد سامان ہے، تو اس کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (التوبۃ، الآیۃ: 60)
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمo
تفسیر القرطبی: (171/8، ط: دار الکتب المصریة)
الْخَامِسَةُ- وَقَدِ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي حَدِّ الْفَقْرِ الَّذِي يَجُوزُ مَعَهُ الْأَخْذُ- بَعْدَ إِجْمَاعِ أَكْثَرُ مَنْ يُحْفَظُ عَنْهُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ- أَنَّ من له دارا وخادما لَا يَسْتَغْنِيَ عَنْهُمَا أَنَّ لَهُ أَنْ يَأْخُذَ مِنَ الزَّكَاةِ، وَلِلْمُعْطِي أَنْ يُعْطِيَهُ.
وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: مَنْ مَعَهُ عِشْرُونَ دِينَارًا أَوْ مائتا درهم فلا يأخذ من الزكاة.فَاعْتَبَرَ النِّصَابَ لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ: (أُمِرْتُ أَنْ آخُذَ الصَّدَقَةَ من أغنيائكم وارد ها فِي فُقَرَائِكُمْ). وَهَذَا وَاضِحٌ، وَرَوَاهُ الْمُغِيرَةُ عَنْ مالك.
الدر المختار مع رد المحتار: (347/2، ط: دار الفکر)
(و) لا إلى (غني) يملك قدر نصاب فارغ عن حاجته الأصلية من أي مال كان۔
(قوله: فارغ عن حاجته) قال في البدائع: قدر الحاجة هو ما ذكره الكرخي في مختصره فقال: لا بأس أن يعطي من الزكاة من له مسكن، وما يتأثث به في منزله وخادم وفرس وسلاح وثياب البدن وكتب العلم إن كان من أهله، فإن كان له فضل عن ذلك تبلغ قيمته مائتي درهم حرم عليه أخذ الصدقة، لما روي عن الحسن البصري قال كانوا يعني: الصحابة يعطون من الزكاة لمن يملك عشرة آلاف درهم من السلاح والفرس والدار والخدم، وهذا؛ لأن هذه الأشياء من الحوائج اللازمة التي لا بد للإنسان منها.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی